آج سے بیس برس پہلے کا ذکر ہے۔
جون کے آگ برساتے سورج کو مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے چھپے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ رات کا پہلا پہر ڈھل رہا تھا۔ بادشمال ہرے بھرے شہر کی شادابیوں سے سرگوشیاں کررہی تھی۔ ایوان صدر کا پرتکلف عشائیہ ختم ہوچکا تھا۔ معزز مہمانان گرامی متصل ڈرائنگ روم میں اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ ماحول پراسرار سے تناو کی گرفت میں تھا۔ شکم سیری کے باوجود مہمانوں کے چہروں پر بھوک اور طلب کی سنولاہٹ بکھری ہوئی تھی۔ صدر محمد رفیق تارڑ کے عشائیے میں شریک یہ مہمان کوئی عام افراد نہ تھے۔ یہ وقت کے بادشاہ تھے۔ پاکستان کے مالک ومختار تھے۔ جن کی جنبش لب آئین، قانون، پارلیمنٹ سب پہ بھاری تھی۔ موسم جن کی اجازت سے کروٹ بدلتے اور ہوائیں جن سے اذن خرام لے کر سفرپرنکلتی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف (چیف آف آرمی سٹاف، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف ایگزیکٹو پاکستان) لیفٹیننٹ جنرل محمد یوسف (چیف آف جنرل سٹاف) لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد (ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل غلام احمد (چیف آف سٹاف) اور جنرل مشرف کے معتمد خاص عزت مآب طارق عزیز۔ اس عشائیے کی خواہش خود جنرل پرویز مشرف کی طرف سے آئی تھی۔ 13 جون کی تاریخ اور شرکا کی فہرست بھی انہوں نے دی تھی۔ یہ بھی کہاگیا تھا کہ اس ملاقات کی میڈیا کوریج نہیں ہوگی۔ صدر تارڑ کو ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرف سے کچھ خبریں ملی تھیں۔ انہوں نے 12 جون کی شام مجھے اپنی رہائش گاہ بلاکر اس عشائیے کے محرکات اور امکانات پر تفصیل سے بات کی تھی۔ بطور پریس سیکریٹری میرا اس عشائیے سے کچھ واسطہ نہ تھا، سو میں دو تین سو میٹر دور، صدارتی کالونی میں واقع اپنی رہائش گاہ میں بیٹھا عشائیے کی کوکھ سے پھوٹنے والی انہونیوں کے زائچے بُن رہا تھا۔
مہمانوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ جنرل مشرف نے گلا صاف کیا اور طویل تمہید کے بعد حرفِ مدعا پہ آئے ”سر اس صورحال میں فوجی قیادت کی رائے یہ ہے کہ میرے صدر بن جانے سے پالیسیوں کے تسلسل کا پیغام جائے گا۔ باہر سے سرمایہ کاری آئے گی۔ ملکی مفاد کو تقویت ملے گی۔“ میں اُن تمام تفصیلات کو نظر انداز کررہا ہوں جو اگلے دن صدر تارڑ نے مجھے بتائیں۔ جنرل مشرف حرفِ مدعا کہہ چکے تو صدر رفیق تارڑ نے بھی تفصیل سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور آخر میں کہنے لگے ”آپ کے صدر بننے کی کیا صورت ہے؟ طریقہ کار کیا ہوگا؟ جنرل غلام محمد گویا ہوئے ”طریقہ کار کیا ہونا ہے سر، آپ استعفا بھی تو دے سکتے ہیں“۔ صدر کے لہجے میں تھوڑی ترشی آگئی۔ بولے ”جنرل صاحب! میں کسی انقلاب کے ذریعے یا کسی کا تختہ الٹ کر صدر نہیں بنا‘ میں ریکارڈ ووٹ لے کر یہاں آیا ہوں اور..... “ صدر کو ٹوکتے ہوئے چیف آف جنرل سٹاف، جنرل یوسف بولے ”تو کیا آئین آپ کو استعفے کی اجازت نہیں دیتا؟“ صدر کے لہجے کی ترشی، تلخی میں بدل گئی ”جی دیتا ہے اجازت مگر آپ نے اسمبلی چھوڑی نہ سپیکر، میں کسے دوں استعفا؟“اب کے جنرل محمود کی باری تھی۔ بولے ”آپ چیف ایگزیکٹو کو دے دیں“۔ صدر تارڑ بولے ”جنرل صاحب! آپ بہت طاقتور لوگ ہیں۔ میں سب سے بڑا عہدہ رکھنے کے باوجود آپ کے سامنے بہت کمزور ہوں، لیکن جس آئین کا آپ لوگ ذکر کررہے ہیں اس کے مطابق میں سپریم کمانڈر ہوں۔ چیف ایگزیکٹو سمیت آپ سب میرے ماتحت ہیں۔ میری کمان میں ہیں۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے ماتحت کی خدمت میں استعفاپیش کردوں؟“ طارق عزیز بولے ”سر! کوئی طریقہ کار تو نکالنا ہوگا نا“۔ صدر نے کہاکہ ”طریقہ کار نکالنا میرا نہیں، آپ کا دردِ سر ہے“۔ پھر صدر تارڑ حتمی انداز میں بولے ” اور آخری بات سن لیں، میں استعفا نہیں دوں گا“۔
نصف شب ہورہی تھی جب طاقت کے کبیدہ خاطر دیوتا ایوان صدر سے رخصت ہوگئے۔ اگلی صبح میں صدر تارڑ کے دفتر میں بیٹھا ان سے یہ روداد سن رہا تھا کہ ملٹری سیکریٹری، جنرل راشد محمود (جو بعد میں جنرل اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چئیرمین بنے) نے بتایا کہ جنرل محمود ملنا چاہتے ہیں۔ صدر نے کہا: بلا لیں۔ جنرل محمود نے واضح پیغام دیا ”جنرل مشرف دورہ بھارت سے پہلے 20 جون کو صدارت کا حلف لے رہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ استعفا دے دیں“۔ صدر نے انکار کردیا۔
20 جون کی صبح ہی سے صدر کی رہائش گاہ سمیت پورا ایوان صدر محاصرے میں لے لیا گیا تھا۔ ہمارے بچے سکولوں، کالجوں کو نہ جاپائے۔ اس کم نصیب صبح کا آغاز چیف ایگزیکٹو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک فرمان سے ہوا جسے ”چیف ایگزیکٹو آرڈر نمبر 2 برائے 2001 “ کہاگیا ۔ حکم صادر ہوا کہ
"The person holding the office of the President of Islamic republic of Pakistan immediately before the commencement of the proclamation of emergency (amendment order 2001) shall sease to hold the office of THE PRESIDENT with immediate effect"
ایمرجنسی ترمیمی آرڈر 2001 کے اجرا سے فوری قبل، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منصبِ صدارت پر فائز شخص فوری طورپر اپنے عہدے سے فارغ سمجھا جائے گا۔
اس سے متصل ایک دوسرا فرمان ”چیف ایگزیکٹو آرڈر نمبر3، برائے 2001“ جاری ہوا۔
"Upon the office of the President becoming vacant for any reason whatsoever, the chief executive of the Islamic Republic of Pakistan shall be the President of the Islamic Republic of Pakistan."
”چاہے کسی بھی وجہ سے صدر کا عہدہ خالی ہوجانے پر، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف ایگزیکٹو، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر بن جائے گا۔“
اتنی سی بات تھی۔ صدر رفیق تارڑ نہ جانے کیوں سب سے زیادہ ووٹ لینے، وفاق کی علامت اور سپریم کمانڈر ہونے کی تاویلات میں الجھے ہوئے تھے۔ نماز ظہر ادا کرکے وہ لاہور روانہ ہوگئے۔ سرشام ایوان صدر کی ایک پُر شکوہ تقریب میں چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے ایک حاضر سروس، وردی پوش جرنیل، چیف آف آرمی سٹاف اور چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حلف لے لیا۔ انہوں نے کوئی استفسار نہ کیا کہ منتخب صدر کہاں ہے؟ یہ عہدہ کیسے خالی ہوا؟ ایک باوردی جرنیل کیسے صدر بن سکتا ہے ؟ ایسی باتیں، گھاتیں اور وارداتیں، پاکستان کے معمولات کا حصہ ہیں، سو تقریب میں شریک ذی وقار مہمانوں میں سے کسی کے ماتھے پر تحیّر کی کوئی شکن نہ ابھری۔
جون کے آتش مزاج مہینے نے بیس سال پرانی راکھ میں دبی چنگاریاں سلگا دی ہیں۔ دائروں کا یہ سفر کب تک رہے گا؟ کیا ہم مستحکم آئینی وقانونی ڈھانچے اور معتبر نظام قانون وانصاف کی شاہراہ مستقیم کی طرف لوٹ سکیں گے؟ مہذب ممالک میں دستور کو متبرک دستاویز خیال کیا جاتا ہے۔ عدل وانصاف اور امورِ ریاست کے تمام دھارے اسی سرچشمے سے پھوٹتے ہیں۔ آئین شکنوں کے پاس ہمیشہ ”ملکی سلامتی اورقومی مفاد کی دلیل ہوتی ہے“۔ ”ترازوبدست قبیلہ“ رضاکارانہ گرمجوشی اور خوشدلانہ خودسپردگی کے ساتھ اپنی زنبیل سے ”نظریہ ضرورت“ کی سبز چادر نکالتا اور آئین کے مزار پر چڑھا کر آئین شکنوں کے دربار میں جاکھڑا ہوتا ہے۔ یہ قوم سات دہائیوں سے ”وسیع تر قومی مفاد“ اور ”نظریہ ضرورت“ کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے۔ میں نے تو کل کی کہانی بیان کی ہے۔ 1953 میں نیم مفلوج گورنر جنرل غلام محمد نے طاقت کے دیوتاوں کی اشیر باد سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو کھڑے کھڑے گھر بھیج دیا تھا۔ خواجہ صاحب جب کف دردہن غلام محمد کی گالیاں کھا کر نکلے تو اپنی ٹوپی وہیں بھول آئے۔ وہ ٹوپی اور آنے والے کئی وزرائے اعظم کی ٹوپیاں، دستاریں اور دوپٹے غلام محمد کے روحانی ورثا کے مال خانے میں پڑے ہیں۔
آج کے انقلابی دور اور عہد انصاف میں بھی کسی کی جرات نہیں کہ وہ آخری آئین شکن شخص کا احتساب کرے۔ اس کے اربوں روپے کے کھاتوں کی منی ٹریل مانگے۔ اس سے آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں کوئی سوال پوچھے۔ کوئی مائی کا لعل اس کی املاک نیلام نہیں کرسکتا۔ مجال نہیں کہ کوئی اس کے ریڈوارنٹ جاری کرائے۔ اس کے باوجود ”ہز ماسٹرز وائس“ والے کالے توے کی طرح صبح شام ایک ہی راگ الاپا جارہا ہے کہ احتساب سب کا ہوگا، قانون سب کے لئے ہے، ہر ایک کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا۔ احتساب کی تلوار سے صرف حریفانِ سیاست کے سرقلم ہورہے ہیں۔ تازیانے صر ف انہی کی پیٹھ پر برس رہے ہیں۔ قرقیاں اور نیلامیاں انہی کی املاک کی ہورہی ہیں اور اس سب کچھ کو اپنے نامہ اعمال کا حُسن سمجھا جارہا ہے۔ جب تک آئین بے توقیر ہوتا رہے گا اور جب تک ہم قانون وانصاف کے اس دوہرے، دوغلے اور دومنہ والے عفریت سے نجات نہیں پاتے دائروں کا سفر جاری رہے گا۔ ہم انہونیوں کے تلاطم میں گھمن گھیریاں کھاتے رہیں گے۔