غیر معمولی پیش رفت

*Click the Title above to view complete article on https://thefridaytimes.com/.

2020-10-09T14:27:20+05:00 Najam Sethi

سابق ڈی جی ایف آئی اے، بشیر میمن کے انکشافات غیر معمولی پیش رفت ہے۔ اُنہوں نے عوامی سطح پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”سلیکٹڈ“وزیر اعظم، عمران خان نے اُنہیں ذاتی طور پر طلب کرکے حزب اختلاف کے اہم راہ نماؤں کے خلاف غداری اور بدعنوانی کے سنگین مقدمات قائم کرنے کا حکم دیا۔ جب اُنھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اُنہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ وزیر اعظم کے اُس ”حکم“ کی تعمیل اب نیب اور ایف آئی اے میں بشیر میمن کے جانشین کررہے ہیں جبکہ عدالتیں سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔


ایک اور غیر معمولی پیش رفت یہ ہوئی کہ تحریک انصاف کے ایک کارکن، بابر رشید جن کے گورنر پنجاب، محمد سرور اور وفاقی وزیر ریلوے، شیخ رشید کے ساتھ قریبی تعلقات بتائے جاتے ہیں، نے نواز شریف، مریم نواز، سابق وزرائے اعظم اور ریٹائرد تھری سٹار جنرلوں سمیت حزب اختلاف کے بیالیس راہ نماؤں کے خلاف شاہدرہ تھانہ میں غداری کا مقدمہ درج کرادیا۔


پاکستان کی تاریخ میں غداروں کی فہرست بہت طویل ہے جس میں اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی، فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اب نواز شریف کے نام نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اسے ایک ”معمول“ سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا اگر اس تازہ ترین فہرست میں آزاد جموں کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم، راجہ فاروق حیدر کانام نہ آتا۔ راجہ صاحب کے خلاف”غداری“ کا پرچہ درج ہونے اور اُنہیں ”بھارتی ایجنٹ“ قرار دینے سے تو بھارتی میڈیا جوش سے دیوانہ ہوگیا اور اُنھوں نے پاکستان پر جنونی انداز میں حملے کرنا شروع کردیے۔پاکستانی دفتر خارجہ کو دفاعی قدموں پر جانے اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کو بابر بشیر کی درج کرائی گئی ایف آئی آر سے لا تعلقی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب کو اشارہ کردیا گیا ہو۔ گورنر سرور، شیخ رشید اور تحریک انصاف کے دیگر راہ نما ؤں نے بابر رشید سے لاتعلقی کا اعلان کردیا حالانکہ یہ سب اُن کے ساتھ سیلفیوں اور تصاویر میں دکھائی دے رہے تھے۔ وفاقی اور پنجاب کے وزرائے اطلاعات نے دیوانہ وار اعلان لاتعلقی کرنا شروع کردیا۔


تاہم ایف آئی آر کو منسوخ کرکے اپنی ساکھ بچانے کی بجائے پنجاب کے وزیر اطلاعات، فیاض الحسن چوہان نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کا نام نکال کر دیگر کا اس میں رہنے دیں۔ اس سے کچھ نئے سوالات اٹھتے ہیں۔ بابر رشید، جس پر خود بہت سے مجرمانہ کیسز اسی پولیس اسٹیشن میں مقدمات درج ہیں، کس طرح نصف شب کے قریب ایس ایچ او کو جگا کر ایسی ایف آئی آر درج کراسکتا ہے تاوقتیکہ ایس ایچ او کو اپنے اعلیٰ افسران کی طرف سے گرین سگنل ملا ہواور یہ حکم اوپر سے آیا ہو؟ حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کرکے ہونے والی شرمندگی پر متعلقہ افسران سے باز پرس کرے گی لیکن عملی طور پر اس نے کچھ نہ کیا۔ اس سے مزید بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں۔


حزب اختلاف کی طرف سے بھی ایک غیر معمولی پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ اس کی مختلف پارٹیاں آخرکار پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کے پرچم تلے اکٹھی ہوچکی ہیں۔ اس میں چونکا دینے والی بات نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز شریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیے کی بے لا گ قبولیت ہے۔ اس سے پہلے اکثریت کی رائے یہ تھی کہ اسٹبلشمنٹ سے اغماض برتتے ہوئے صرف سلیکٹڈ وزیر اعظم کو ہی ہدف بنایا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ شہباز شریف اور آصف زرداری کا دوسرابیانیہ کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ”مل کر کام کرتے ہوئے“ ذاتی اور سیاسی رعایت لی جائے، ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ اس پیش رفت کی اہمیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ اسٹبلشمنٹ نہیں بلکہ سلیکٹڈ وزیر اعظم تھے جنہوں نے اس ”نوخیز مفاہمت“ کو کچلنے کے لیے بھرپور ریاستی مشینری(نیب، ایف آئی اے، آئی بی، ایس ای سی پی وغیرہ)سے حز ب اختلاف پر چڑھائی کی تھی۔


اس پیش رفت کے غیر معمولی نتائج یہ نکلے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ پہلی مرتبہ تنقید کی زد میں آئی ہے۔ اسے نواز شریف نے کھل کر ”ریاست سے بالا تر ریاست“ قرار دیا ہے۔اسٹبلشمنٹ اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کا ”ایک صفحے“ پر ہونے کا بیانیہ اس کے لیے سخت شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ اس کی وجہ سلیکٹڈ وزیر اعظم کے اپنائے گئے منفی ہتھکنڈے ہیں، جیسا کہ سرکاری ترجمان نے بہت فخر سے کہا کہ اسٹبلشمنٹ مخالف تقریر نشرکرنے کی اجازت دی گئی تاکہ نواز شریف کھلم کھلا اسٹبلشمنٹ کو آڑھے ہاتھوں سے لے سکیں۔


تاہم غیر متوقع نتائج کا قانون اب ریاست کے بدن پر غیر معمولی چرکے لگا رہا ہے۔ جب نواز شریف وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کی جدوجہد قوم کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے بہادر سپاہیوں کے نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کے ایک مخصوص ٹولے کے خلاف ہے تو وہ دراصل کچھ افراد کے ذاتی مفاد یا سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے ادارے کو پہنچنے والی زک کے خلاف اس کا دفاع کرنے کی بات کرتے ہیں۔


واقعات کے اس تسلسل میں سب سے غیر معمولی پیش رفت مریم نواز شریف کا ملک کا سب سے مقبول رہنما بن کر ابھرنا ہے۔ دوسری غیر معمولی پیش رفت ایک چھوٹی سی علاقائی مذہبی جماعت کے اسٹبلشمنٹ نواز رہنما، مولانا فضل الرحمن کا شعلہ بیان اسٹبلشمنٹ مخالف رہنما بن کر جمہوریت الائنس کی قیادت کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں آنا ہے۔


اس تمام تر صورت حال کے نتائج سے مفر ممکن نہیں۔ اگر اسٹبلشمنٹ کی قیادت نے فوری طور پر اپنا راستہ تبدیل نہ کیا تو ہم حالیہ وقتوں کے انتہائی سنگین بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کے ریاست، معاشرے اور پاکستان کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے۔

View More News