نیا پاکستان دو دانشمندانہ مقولے یاد دلاتا ہے۔
لاعلم او ر اپنی لاعلمی سے بے خبر انسان پرلے درجے کا احمق ہے؛ اُس سے ہر ممکن گریز کرو۔
جمہوریت میں لوگوں کو ویسی ہی حکومت ملتی ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت نہیں، ایک ایسی نامزد شاہی مسلط کردی گئی جس کے لوگ مستحق نہیں تھے ۔ مسلہ یہ ہے لوگ اس نامزد شاہی کے نرغے سے نکل نہیں سکتے کیونکہ وہ کمزور، منقسم اور لاچار ہیں ۔
تاہم اسٹبلشمنٹ نے ”ایک صفحے“ پر ہونے کا ورد موقوف کردیا ہے کیونکہ اس کا کھوکھلا پن اس کے لیے خجالت کا سبب بنتا جارہا تھا ۔ درحقیقت معاملات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ اس نے قدم آگے بڑھا کر حساس پالیسی معاملات کو براہِ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ صرف پاکستانیوں نے ہی نہیں بلکہ عالمی برادری نے بھی نوٹ کیا ہے کہ پاکستان کے مشیر برائے مالیاتی امور، وزیرِداخلہ، سیکرٹری داخلہ، مشیر برائے قومی سلامتی، این ڈی ایم اے، سی پیک اور این سی او سی کے سربراہان کا تعلق نامزد شاہی سے ہے۔
حالیہ پیش رفت یہ ہوئی کہ وزیرِخارجہ کو خارجہ پالیسی سازی سے باہر رکھا گیا ۔ جب گزشتہ ہفتے چیف آف آرمی سٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور نمائندہ خصوصی نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت پیدا کرنے کے لیے کابل کا دورہ کیا تو وزیرِ خارجہ کی غیر موجودگی نمایاں تھی ۔ ان مذاکرات کا مقصد امریکیوں کے افغانستان سے انخلا کی راہ ہموار کرنا تھا۔
کسی سے پیچھے نہ رہتے ہوئے ہمارے بانکے سجیلے وزیرِاعظم نے اپنے ٹویٹ پیغام میں بھارتی وزیرِاعظم کی طرف دست تعاون دراز کیا۔ کوویڈ کی وجہ سے پیدا ہونے والے غربت کے مسائل کے حل کے لیے رقوم کی فراہمی کے شاندار پروگرام کو بروئے کار لانے پر آمادگی ظاہر کی ۔ خیر اس پروگرام کا سہرا محترمہ بے نظیر بھٹو کے سر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے ملک کے غریب شہریوں کے لیے ان دو تکلیف دہ مہینوں کے دوران جس رقم کا وعدہ کیا گیا تھا، اس سے صرف نصف ہی فراہم کی جاسکی ۔ اگلے بارہ ماہ کے دوران چالیس ملین افراد کے لیے مختص کردہ 71 ارب روپے مونگ پھلی کے دانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
ملک میں بیک وقت چینی، گندم اور پٹرول کا بحران پیدا کرلینا یا اس سے نمٹنے میں ناکام ہونا کسی بھی حکومت کے لیے غیر معمولی بات ہے، خاص طور پر اُس وقت جب ہر چیز کا وافر سٹاک موجود ہے۔ یہ ایک ناقابلِ یقین بات دکھائی دیتی ہے کہ کسی ملک کا وزیرِاعظم پہلے یہ کہے کہ کوویڈ 19 مہلک وائرس نہیں اور وہ عوام کو یقین دلائے کہ ”گھبرانا نہیں“۔ نیز یہ ایک عام سا فلو ہے۔ اس کے بعد ساتھ ہی پینترا بدل کر لوگوں کو خبردار کرنا شروع کردے کہ جون اور جولائی کے دوران وبا کے خطرناک اضافے کے دوران ناممکن ایس اوپیز پر عمل کرایا جائے گا ۔ بدترین بات یہ ہے کہ جب عالمی ادارہ ئ صحت نے حکومتی پالیسی کی پیہم غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فوری اقدامات کی ہدایت کی تو پی ٹی آئی کے وفاقی اور صوبائی وزرائے صحت اور مشیران نے فوراً ہی اس نصیحت کے خلاف محاذ کھڑا کرلیا۔
صرف یہی نہیں، وزیر ِاعظم پاکستان نے بہت فخر سے اپنے اسلامی اوصاف بیان کرتے ہوئے اسلامی دنیا کے رہنماؤں پر تنقید کے تیر برسائے۔ دعویٰ یہ تھا کہ اُنھوں نے مساجد کھولنے کی اجازت دی ہے جبکہ اسلامی دنیا کے دیگر رہنماؤں نے کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش ِ نظر مساجد بند کردیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران مساجد کھولنے کے فیصلے کی وجہ سے ہی لاک ڈاؤن غیر موثر رہاتھا۔ اسی طرح وزیر ِاعظم نے بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی فوری وطن واپسی کے اقدامات کرنا شروع کردیے حالانکہ اُن میں سے نصف کے قریب وائرس سے متاثرہ تھے۔ وطن واپسی پر اُن کے ٹیسٹ یا قرنطینہ کرنے کا موثر انتظام موجود نہیں تھا۔ چنانچہ وائرس بلاروک ٹوک پھیلتا چلا گیا۔
پوری دنیا اندرون ملک آنے والی پروازیں بند کرچکی تھی لیکن ہمارے ہاں اس پالیسی کو نظر انداز کردیا گیا۔ وزیرِاعظم بیک وقت معیشت کا گلا گھونٹنے اور عوام کو وائرس سے متاثر کرنے میں کامیاب رہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ خود کو ان کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ چارماہ تک وزیرِاعظم اور اُن کی کابینہ کے اراکین نے کیمروں کے سامنے ماسک لگائے بغیر پریس کانفرنسیں کرتے ہوئے پیغام دیا کہ ”سب ٹھیک ہے“، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ اب ہم اس لاپرواہی، لاعلمی اور سنگدلی کی بھیانک قیمت چکانے جارہے ہیں۔
صورت حال خطرناک موڑ مڑ چکی ہے۔ لوگ اپنی زندگی کے مہلک ترین بحران کی ذمہ داری صرف حکومت ہی نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ پر بھی عائد کررہے ہیں کیونکہ وہ اس نامزد شاہی کی وہی ذمہ دار ہے۔ اس کی وجہ سے دو باتیں ہورہی ہیں: پہلی یہ کہ کابینہ کے وزرا متعدد مسائل پر ایک دوسرے کومورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ الزام تراشی میڈیا کی زینت بن رہی ہے۔ دوسری یہ کہ مقتدرہ خاموشی سے لیکن بتدریج خود کو حکومت کے تباہ کن فیصلوں سے دور کرتے ہوئے باعزت واپسی کا راستہ تلاش کررہی ہے۔
اب اُنہیں تسلیم کرلینا چاہیے پاکستان پر حکومت کرنے کا اُن کا تازہ ترین تجربہ بھی ناکام گیا ہے۔ صرف یہی نہیں، اس نے ریاست اور معاشر ے کو بھی بے پناہ نقصان پہنچایاہے۔ اس مزید سہارا دے کر قائم رکھنے سے ریاستی اداروں، جیسا کہ نیب، ایف آئی اے، عدلیہ اور بیوروکریسی کا ناقابل تلافی نقصان ہوجائے گاکیونکہ ان سب کو غیر قانونی احکامات کی بجاآوری کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔
اس دوران افق پر روپہلی ر وشنی کی کوئی رمق ہویدا نہیں۔ معیشت اور کوویڈ 19 کی صورت حال اتنی خراب ہے کہ عوام کسی بھی وقت اس تباہ کن حکومت سے نجات کے لیے احتجاجی مظاہروں کی طرف جاسکتے ہیں۔ اس پر مستزاد، اگر بھارت پاکستان کی سرحدوں پر تناؤ کو اس نہج تک لے جاتا ہے جس کا دباؤ ہم برداشت نہ کرپائیں تو ناکامی کی قیمت پاکستان میں بہت سوں کے لیے نقارہ اجل ثابت ہوگی۔