آٹھ سال کا عرصہ لگ گیا، 150 سماعتیں ہوئیں، 100 مرتبہ کیس پر التوا لیا گیا، تین چیف الیکشن کمشنروں نے تحریک انصاف کو ہونے والی فنڈنگ کے ذرائع کا کھوج لگایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف تحریک انصاف نے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالی، جس میں ایک جائزہ کمیٹی بھی شامل تھی، بلکہ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ نے بھی انصاف کا ترازو الٹا رکھا۔ اور یہ ادارے ان برسوں میں عمران خان کو سہارا دیے ہوئے تھے۔ اب سیاسی ماحول تبدیل ہوچکا۔ اس گناہ کے داغ اصل گناہ گاروں کے دامن پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اور یقینا انھیں دھونے کا وقت آچکا۔
دلیر اور دیانت دار چیف الیکشن کمشنر،اسکندر سلطان راجہ کی قیادت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی فارن فنڈنگ کیس میں رپورٹ عمران خان کے خلاف کھلی فرد جرم ہے۔رپورٹ الزام لگاتی ہے کہ تحریک انصاف، اس کی اہم قیادت، بشمول عمران خان نے ”جانتے بوجھتے ہوئے“ممنوع فنڈنگ موصول کی، اکاؤنٹس میں گربڑ کی، بھاری رقوم چھپائیں اور ٹھکانے لگائیں اور جھوٹے حلف نامے جمع کرائے، وغیرہ۔
یہ تو 2008 سے 2013 تک جاری سلسلے کا گویا ایک باہری کنارہ ملا ہے۔ آہستہ آہستہ مزید گھناؤنے حقائق سامنے آرہے ہیں۔اس کے لیے قوم تحریک انصاف کے اُن بانیان کی مشکور ہے جنھوں نے حقیقت حال کھلنے پر بددل ہوکر پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ان میں سے ایک اکبر شیر بابر ہیں جنھوں نے تن تنہا عمران خان کے خلاف اس وقت کیس لڑا جب عمران خان اپنی طاقت کے عروج پر تھے اور ہر ریاستی ادارہ اُنھیں خوش کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ اس جوانمردی پر اکبر شیر بابر لائق تحسین ہیں۔
بلاشتہ الیکشن کمیشن پاکستان کی عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف فرد جرم پی ڈی ایم حکومت کے لیے کسی تائید غیبی سے کم نہیں۔ اب عمران خان کو پارلیمنٹ کا رکن ہونے اور تحریک انصاف کی قیادت سے نااہل کرانے کا موقع ان کے ہاتھ آگیا ہے۔ اسی طرح منی لانڈرنگ اور رقوم کی خورد برد کی پاداش میں تحریک انصاف کے کئی ایک اہم رہنماؤں کو سزا ہوسکتی ہے۔
اس سے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے کیس پر ایک مرتبہ پھر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ اُنھیں 2017 ء میں سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں حصہ لینے سے تاحیات نااہل کردیا تھاکیوں کہ اُنھوں نے 2013 ء کے انتخابات کے الیکشن کے حلف نامے میں وہ معمولی سی رقم ظاہر نہیں کی تھی جوقابل وصول تو تھی لیکن اُنھوں نے موصول نہیں کی تھی۔ انصاف کا یہی پیمانہ رکھیں تو عمران خان کی مالیاتی عنوانی کے ملنے والے ثبوتوں کے پہاڑ دیکھیں تو کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ اگر اُن کی ایک تو کیا، سینکڑوں زندگیاں ہوں تو بھی وہ ان سب کے لیے نااہل ہوجائیں گے۔
پی ڈی ایم حکومت عمران خان کو سزا دلوانے کے لیے پرعزم ہے تاکہ اُن کا صادق اور امین کا بھرم چاک کرسکے۔ صرف یہی نہیں،عمران خان کے گیارہ مزید ساتھی بھی منی لانڈرنگ اور رقوم کی خورد برد کے سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ ان میں قومی اسمبلی کے سابق سپیکر، اسد قیصر، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی شامل ہیں۔ یہ تحریک انصاف پر پابندی لگوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر بھی غور کررہی ہے۔ تاہم پارٹی پر پابندی لگانے کا کیس کمزور ہے۔ نیز کسی مرکزی دھارے کی عوامی جماعت پر پابندی لگانا کسی طور پر پسندیدہ تصور نہیں ہوتا کیوں کہ یہ کسی اور نام سے اپنی سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے خود کو مظلوم ثابت کرکے سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔نیز سپریم کورٹ کا اس کے برعکس فیصلہ پارٹی کی مردہ رگوں میں ایک با ر پھر زندگی کا لہو دوڑ ا سکتا ہے۔
اس کیس نے 2017 میں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو اجاگر کردیا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال عمران خان کے خلاف اس دوٹوک اور سیدھے سادھے کیس میں کیا کریں گے؟ اگر تعصب، جھکاؤاور جانبداری سے کام لیا گیا تو وہ اپنے پیش رو ثاقب نثار اور آصف کھوسہ کی طرح تاریخ کے بدنام حلقے میں کھڑے دکھائی دیں گے۔
عمران خان اپنے فریب کی شدت کو ہمیشہ سے جانتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے الیکشن کمیشن کو آٹھ سال سے روک رکھا تھا۔ لیکن جب انھیں معلوم ہوگیا کہ ا سکندر سلطان راجہ ان کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہیں تو عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیے۔ لیکن اسٹبلشمنٹ کی تائید اور حمایت سے محرومی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ آسمان نے فسطائیت کو اتنا بے بس کب دیکھا تھا!
اگر عمران خان کو قانون اور آئین کے مطابق سزا سنائی جاتی ہے تو اس بحث کا رخ ان کی باضابطہ تاحیات معزولی کے سیاسی نتائج پر ہو گا۔ نواز شریف کے برعکس جس کی پارٹی اپنی بقا کے لیے اپنے خاندانی مورچوں میں قدم جمانے میں کامیاب ہوگئی، تحریک انصاف کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا کہ وہ جدو جہد کرتی دکھائی دے جب کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کا امکان ختم ہوچکا ہو۔
قابل فہم بات یہ ہے کہ عمران خان اور نواز شریف کے درمیان ایک نئے میثاق جمہوریت کی بات ہوسکتی ہے جو آئین میں ترمیم کرتا ہے تاکہ دونوں لیڈروں اور جماعتوں کو جیو اور جینے دوکے قابل بنایا جا سکے۔ لیکن اس کے لیے عمران خان کو انتہائی یوٹرن کی ضرورت ہوگی کیونکہ ان کا مقبول بیانیہ ”چور“ پی پی پی اور پی ایم ایل این کے خاتمے پر ہی بنیاد رکھتا ہے۔
اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ نے مل جل کر طور پر دوتہائی مینڈیٹ رکھنے والی پاکستان مسلم لیگ ن کو 2013 سے لے کر 2018 تک عدم استحکام سے دوچار رکھنے اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نوا زشریف کو تاحیات معزول کرانے کا اصل گناہ سرانجام دیا تھاتاکہ عمران خان کی ہائبرڈ حکومت کو ملک پر مسلط کیا جاسکے۔ اب انھیں اس گناہ کی تلافی کرنی ہے۔
ریاستی غیرجانبداری اور منصفانہ کھیل کے ماحول میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا ایک عام مقبول نسخہ ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ یا تو عمران خان کو سزا سنا کر اور نواز شریف کی طرح جلاوطنی پر بھیج کر کھیل کا میدان برابر کر سکتی ہے۔ لیکن اس سے سیاسی طور پر اصل گناہ بڑھ جائے گا۔ یا وہ نواز شریف کی واپسی میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں تاکہ وہ عمران خان کے ساتھ برابری کرتے ہوئے اپنی مختلف نام نہاد سزاؤں کو الٹ کر ایک آزاد آدمی کے طور پر اپنی پارٹی کی قیادت کریں۔ پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کی طرف سے قلم کا ایک جھٹکا اس بدنام زمانہ قانون کو ختم کر سکتا ہے جو پارلیمانی زندگیوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اگر دونوں ریاستی ادارے بھی آگے بڑھتے ہوئے اپنے آئینی کردار کی حدود کو تسلیم کرلیں تو اصل گناہ کی یہی تلافی ہوگی۔