کچھ عرصہ پہلے تک کیوبا کے انقلابی رہنما، فیڈل کاسترو ”قوم کے نام“ سب سے زیادہ تقاریر کرنے کا عالمی ریکارڈ رکھتے تھے۔ اب ہمارے مقامی ہیرو، عمران خان یہ ریکارڈ توڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ایک تقریر، انٹرویو، خطاب یا ایک بریفنگ تیار کررکھی ہے جو کم و بیش ایک سال سے روزانہ نشر کیے جارہے ہیں۔ لیکن دونوں رہنماؤں میں ایک فرق ہے۔ کاسترو کے خطابات سوشلسٹ قوم سازی کے اُن اصولوں پر مبنی تھے جنھوں نے کیوبا کو بالآخر امریکہ کی استحصال زدہ اور غربت کی ماری ہوئی کالونی سے اٹھا کر ایک ترقی کرتے ہوئے قابل فخر ملک میں تبدیل کردیا۔ دوسری طرف خان کی”حکمت کے موتی“ موقع پرستی، یوٹرن، پروپیگنڈااورشرمناک جھوٹ سے لبریز ہیں۔ انھوں نے، جب کہ وہ اقتدار میں تھے، پاکستان کو آئینی جمود اور معاشی بگاڑ کے دھانے پرپہنچا دیا۔ اور اب جب کہ وہ اپوزیشن میں ہیں، وہ سیاسی عدم استحکام اور معیشت کی تباہی پر کمر بستہ ہیں۔
عمران خان کی حکمت عملی، اگر اسے حکمت کا نام دیا جاسکے، اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ سیاسی ”غیر جانبداری“ ترک کرتے ہوئے پی ڈی ایم حکومت کو چلتا کرنے میں ان کا ساتھ دے، اور پھر جلدی سے عام انتخابات کرا کر اُنھیں اقتدار میں پہنچا دے کیوں کہ پی ڈی ایم کا گراف نیچے گر رہا ہے۔ اُنھوں نے قومی اسمبلی کا گھیراؤ کرنے کے لیے لانگ مارچ کی دھمکی دی۔ پھر اُنھوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مختصر مدت کی توسیع دینے کی پیش کش کی تاکہ وہ ایک نگران بندوبست کی ”نگرانی“ کرسکیں۔عمران خان اس بندوبست میں انتخابات جیت کر اقتدار سنبھال لیں اور پھر جنرل فیض حمید کو آرمی چیف نامزد کردیں۔ جب نواز شریف اس فارمولے کو خاطر میں نہ لائے،تو عمران خان نے پی ڈی ایم اور اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈالا کہ وہ جنرل عاصم منیر کی بجائے کسی اور آرمی چیف نامزد کریں۔ ایک مرتبہ پھر نواز شریف کی استقامت کی وجہ سے یہ چال ناکام ہوچکی ہے تو عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے اور ملک کو افراتفری کی دلدل میں دھکیلنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
کیا لانگ مارچ کی طرح یہ دھمکی بھی کھوکھلی ہے اور کیا ایک مرتبہ پھر ان کا وار خالی جائے گا؟
عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ سترہ دسمبر کو اعلان کریں گے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی دھمکی کو عملی جامہ کب پہنایا جائے گا؟اس میں ایک ہفتہ، دوہفتے یا زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح لانگ مارچ کی تاریخ کا بھی باقاعدہ وقفوں سے اعلان کیا جاتا رہا تھا۔ لیکن نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ ایسے اعلانات نے پی ڈی ایم کو ایک موقع فراہم کردیا کہ وہ یا تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے عدم اعتماد کی قرار داد پیش کردیں یا اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہیں۔ وہ اعلیٰ عدلیہ سے بھی رجوع کرسکتے ہیں کہ فلور کراسنگ پر کیے گئے کچھ فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے تاکہ اسمبلیوں کو تحلیل ہونے سے روکا جاسکے۔
مسٹر خان کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم کے ساتھ قبل از وقت انتخابات کے لیے مذاکرات کے کھیل میں واپس آنا ہے۔ انھوں نے صدر عارف علوی کو اسٹبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کے ساتھ بیک ڈور بات چیت کی ذمہ داری سونپی تاکہ انہیں عزت بچاتے ہوئے قومی اسمبلی میں واپسی کے لیے مدعو کیا جائے جہاں نگراں حکومتوں کی تشکیل سمیت اگلے انتخابات کی شرائط و ضوابط طے کیے جائیں۔ دلچسپ بات ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی انھیں اس سمت لانے کی خواہش مند دکھائی دیتی ہے۔ بظاہر تحریک انصاف استعفے سپیکر کے سامنے ذاتی طور پر جمع کرائے گی۔ یہ بہانہ اسلام آباد آنے کے لیے عزت بچانے کا کام دے گا۔ انتخابات کے لیے کوئی قابل قبول تاریخ کے لیے حکومت کے ساتھ ڈیل کی جائے گی۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر یوٹرن لیا جائے گا۔
لیکن اگر یہ منصوبہ عملی جامہ نہ پہن سکا تو کیا ہوگا؟ اگر پی ڈی ایم اسے عزت بچانے کی اجازت نہیں دیتی اور اسے اپنی دھمکی پر عمل کرنے اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے پر مجبور کرتی ہے تو کیا ہوگا؟
اس حوالے سے دو تصورات کو پذیرائی حاصل ہے۔ نہ اسٹبلشمنٹ اور نہ ہی پی ڈی ایم حکومت فوری عام انتخابات میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ایسا کرنا قومی مفاد کے خلاف ہے کیوں کہ معاشی تبدیلی کے لیے سیاسی استحکام درکار ہے۔مؤخر الذکر کا خیال ہے یہ اسے سیاسی طور پر زک پہنچائے گا تاوقتیکہ اسے انتخابات کی تیاری کے لیے وقت مل جائے۔اس صورت میں اگر خان اپنی دھمکی پر عملی جامہ پہنانے کے لیے پیش قدمی کرتے ہیں تو دونوں مل کر انھیں میدان سے نکال باہر کریں گے۔ متعدد مقدمات کی سر پر لٹکنے والی تلوار چل سکتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک میں بھی الیکشن لڑنے سے نااہلی کی سزا ہوسکتی ہے۔ ضرورت پڑی تو فوجداری مقدمہ بھی چل سکتا ہے۔ قیدو بند کی سزا بھی خارج ازامکان نہیں۔
عمران خان سنگین غلط فہمی کا شکا رہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ جنرل باجوہ پر کھلے عام حملے کر کے وہ اسٹبلشمنٹ میں تقسیم کے بیج بو رہے ہیں یا جنرل عاصم منیر پر حملہ نہ کر کے وہ نئے آرمی چیف کا دل جیت رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ اپنے سابق آرمی چیف کی ساکھ کا تحفظ کرنے اور اپنے ادارہ جاتی مفادات کے دفاع کے لیے متحد ہے، جیسا کہ اس نے ماضی میں کئی مواقع پراس کا مظاہرہ کیا ہے۔ خان بھی غلطی پر ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ فوج کی نئی قیادت پر دباؤ ڈال کر ان افسران کو برطرف کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں جن کا نام مقتول صحافی ارشد شریف کی والدہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط میں لکھا ہے۔
عمران خان کا تماشا ختم ہوچکا۔اب وہ یا تو آئینی اصولوں کے مطابق کھیلیں۔پارلیمنٹ میں واپس آ جائیں اور اگلے انتخابات کے شیڈول کے مطابق ہونے کا انتظار کر یں، یا پھر نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح نااہلی اور ممکنہ قید کا سامنا کر نے کے لیے تیار رہیں تاکہ دونوں کو یکساں میدان میسر آسکے۔