آن لائن نیوز ایجنسی کے مالک اور مدیر،محسن بیگ اسٹیبلشمنٹ کے خود ساختہ فعال بازو ہیں ۔ وہ 2014-15 کے بدنام کنٹینر پر موجود تھے۔ عمران خان کے راز دار ہونے اور اُن کے لیے عطیات اکٹھے کرنے کا اعتراف کرتے ہیں ۔ عمران خان کے ذاتی دوستوں کی خاص محفلوں میں ان کی ایک ساتھ تصاویر ہیں۔ چنانچہ جب کچھ ماہ قبل وہ عمران خان پر کھل کر تنقید کرنے لگے تو قدرتی طور پر چہ میگویاں شروع ہوگئیں ۔ کیا خان اور اسٹیبلشمنٹ جس نے انہیں عہدہ پر فائز کیا تھا،کے درمیان اس حد تک اختلافات بڑھ چکے کہ اسٹیبلشمنٹ کے میڈیا اثاثوں کو ان کے خلاف متحرک کرنے کا وقت آ گیا ہے؟ پھر جب بیگ نے عوامی سطح پر عمران خان کے ”گدلے رازوں“ کو بے نقاب کرنے کی دھمکی دی تو شک یقین میں بدل گیا ۔ گویا مہر تصدیق ثبت ہوگئی۔
عمران خان جانتے ہیں کہ اس طرح کے انکشافات ان کی ڈگمگاتی سیاست اور کردار کو کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ محسن بیگ کو ایف آئی اے نے 16 فروری کی صبح اسلام آباد میں اس کے گھر سے گرفتار کیا۔جزوی طور پر اسے خاموش کرنے کے لیے اور جزوی طور پر دوسرے سابق ساتھیوں کو وارننگ دینے کے لیے کہ مبادا وہ بھی انکشافات کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں ۔ تاہم خان صاحب کی بدقسمتی کہ بیگ کی گرفتاری کے انداز اور ان پر لگائے گئے الزامات سے ان کی مضبوطی کا تاثر نہیں ابھر ا۔ بلکہ اسے خاصی زک پہنچی ہے۔
ایف آئی اے کی ٹیم سادہ لباس میں محسن بیگ کو گرفتار کرنے گئی ۔ اس نے سوچا کہ وہ ڈاکو یا اغوا کار ہیں، اس لیے اس نے بندوق نکالی اور ہوائی فائرنگ کردی ۔ مزاحمت پر اس سے سختی برتی گئی۔ پولیس پہنچی اور بیگ کو اٹھالیا اورحوالات میں بند کردیا ۔ پولیس کو طلب کرنے اور ان کے طرز عمل کی وضاحت کرنے کے لیے دوپہر کوایک ایڈیشنل سیشن جج سے رابطہ کیا گیا۔تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی، مراد سعید کی جانب سے صبح 9 بجے لاہور میں بیگ کے خلاف مبینہ سائبر کرائم کی ایف آئی آر کیسے درج کی گئی لیکن صبح 9.30 بجے تک ایک ٹیم اسلام آباد میں اسے گرفتار کرنے کے لیے حرکت میں آچکی تھی ۔ جج نے ایف آئی آر پر ایک نظر ڈالی اور گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ پولیس نے جواب میں دہشت گردی کے الزامات لگائے اور بیگ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جس نے اسے تین دن کے ریمانڈ پر دے دیا۔ اس پر سوالات اٹھے۔ مثال کے طور پربیگ کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کیوں لگائے گئے جب ان پر صرف یہ الزام تھا کہ انہوں نے ایک ٹی وی شو میں مراد سعید کا ایک آڑا سا حوالہ دیا تھاجو عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی تصنیف کردہ کتاب سے لیا گیا تھا۔
عوامی رائے یہ ہے کہ عمران خان خوف و ہراس اور غصے کے عالم میں بے چین ہو رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف ہو گئی ہے۔ اپوزیشن ان کے خلاف متحدہ محاذ بنا رہی ہے ۔ اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انہیں نکال باہر کرنے کے سگنل کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس عالم میں عمران خان اپنے ناقدین کو ڈرا رہے ہیں۔ ہٹ لسٹوں کی ہنگامی تیاری جاری ہے ۔ جابرانہ صدارتی آرڈیننس کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔ خان کے ساتھیوں اور خاندان میں کرپشن کی داستانیں چھپائے نہیں چھپ رہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالتیں جاگ رہی ہیں ۔ ہر کوئی ایک سوال پوچھ رہا ہے: سب سے پہلا وار کون کرے گا، اور کب؟
عمران خان کو ہٹانے کے تین طریقے ہیں ۔ سب سے پہلے ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس میں ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہو۔ دامن کے داغ بوجھل ہوتے جائیں ۔ دباؤ اتنابڑھ جائے کہ وہ خود ہی منظر نامے ہٹ کر گھر چلے جائیں۔لیکن خان صاحب ضد کے پکے ہیں۔ وہ قدم جما کر آخری مورچے تک لڑنے کی دھن رکھتے ہیں، چاہے جتنا بھی نقصان ہوجائے ۔ دوسرا، اُنھیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نااہل قرار دے دے جس کا فارن فنڈنگ کیس پر فیصلہ مارچ کے پہلے یا دو سرے ہفتے متوقع ہے ۔ یہ قانونی راستہ اختیار کرنے سے نوازشریف کے ساتھ کیے گئے سلوک کا حساب کسی حد تک برابر ہوجائے گا۔ تیسرا یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کو کامیاب کرایا جائے۔ پہلے دو کا امتزاج تیسرے گدلے کھیل سے کہیں زیادہ صاف ہوگا۔
چوتھا راستہ بھی ہے ۔ اگر عمران خان آرمی چیف کو برطرف کرنے اور اپنے کسی آدمی کی تقرری کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی کمان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ نواز شریف نے 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کیا تھا۔ اس صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے جوابی وار سے اُن کا بھی وہی حشرہوگا جو نواز شریف کا ہوا تھا ۔ لیکن اس صورت میں ملک اور اس کی سیاست غیر متوقع اور غیر ارادی نتائج کے علاوہ غیر یقینی پن کا شکار ہوجائے گی۔
بہر حال جلد یا بدیرجو بھی راستہ اختیار کیا جائے، عام انتخابات ہوں گے اور ملک کی مقبول ترین جماعت، پاکستان مسلم لیگ ن اسلام آباد میں حکومت بنائے گی اور ملک معمول کی جمہوریت کی طرف لوٹ جائے گا۔
چونکہ اگلے چند ہفتوں میں عمران خان کے لیے معاملات خراب ہوتے جا رہے ہیں، وہ اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے غیر قانونی اور غیر آئینی طریقوں کا سہارا لے سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر وہ اپوزیشن کے پارلیمانی ارکان کو گرفتار کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں تاکہ وہ انہیں ہٹانے کے لیے مطلوبہ تعداد جمع نہ کر سکیں۔ یا وہ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کو حکم دے سکتے ہیں کسی بھی رائے شماری کے نتائج میں ہیرا پھیری کرکے یا ان کے آئینی حقوق اور مراعات سے انکار کرکے اپوزیشن کو ناکام بنائیں ۔ اور عوامی تاثر ہے کہ موجودہ سپیکر قومی اسمبلی جانب دار ہیں۔ یا وہ آئینی ابہام اور قانون کی بے مثال تشریحات کا فائدہ اٹھا کر کنفیوژن کے بیج بو سکتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے منتخب صدر کی حمایت سے عہدے سے چمٹے رہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں امپائر کو خود اکھاڑے میں اترنا پڑے گا۔
کچھ لوگ اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ اور حزب اختلاف کو چکمے پر چکما دیتے ہوئے نہ صرف اگلے عام انتخابات تک اپنا بچاؤ کرجائیں گے بلکہ انتخابات میں دھاندلی کرتے ہوئے ایک اور مدت کے لیے حکومت بھی بنالیں گے ۔ ایسے لوگ شاید عوام کے بڑھتے ہوئے غیض و غضب کا اندازہ نہیں لگارہے۔ سول ملٹری سیاست دان، جنہوں نے آئین کو پامال کرنے، مینڈیٹ چرانے اور ہائبرڈ یا آمرانہ حکومتیں مسلط کرنے کی کوشش کی، اُنہیں جلد یا بدیر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔