آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
بغض و حسد کے مارے لوگ کچھ بھی کہتے رہیں، مجھے تو ذرہ برابر شک نہیں کہ ہماری تاریخ میں نہ پہلے کوئی فرد، عمران خان نامی بطل جلیل جیسا آیا، نہ آئندہ آئے گا، تاہم سیانے کہتے ہیں کہ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے اور دما دم صدائے ”کن فیکون“ آ رہی ہے اس لئے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال یہ بات یقینی ہے کہ خان صاحب جیسے کسی دیدہ ور کے لئے، نرگس کو برس ہا برس تک اپنی بے نوری کا ماتم کرنا پڑے گا۔
آج کل خان صاحب، اسلامی جمہوریہ پاکستان (جسے وہ ریاست مدینہ کہتے ہیں ) کے وزیراعظم کی حیثیت میں تحمل، برداشت، فراخ قلبی، وضعداری، اسلامی اخلاقیات، مشرقی روایات، جمہوری اقدار اور آئینی مسلمات کا جو بے مثال مظاہرہ کر رہے ہیں وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ آج بقول ان کے ساری دنیا انہیں بے دخل کرنے کے در پے ہے۔ جو بائیڈن صبح سے شام تک اسی ادھیڑ بن میں رہتا ہے کہ عمران خان کا توڑ کیسے کیا جائے جس کی قیادت میں پاکستان ہر پہلو سے ایک ناقابل تسخیر عالمی قوت بنتا جا رہا ہے۔ یہی حال برطانیہ اور فرانس سمیت دوسرے ممالک کا ہے۔ یورپی یونین کو تو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ خان بدستور پاکستان کا وزیراعظم رہا تو یورپ انبوہ خس و خاشاک ہو کر رہ جائے گا۔
سندھ ہاؤس میں پناہ گزیں پی ٹی آئی کے ارکان کا الزام، پیپلز پارٹی بلکہ براہ راست آصف علی زرداری کے سر تھوپا جا رہا ہے لیکن یہ سب کیا دھرا خان کی مخالف عالمی طاقتوں کا ہے۔ ان عالمی طاقتوں کے سفارت خانے براہ راست سندھ ہاؤس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ شنید ہے کہ اگر شیخ رشید احمد کی تجویز پر سندھ میں گورنر راج لگا تو یہ سارے ”منحرفین“ امریکی سفارت خانے منتقل کر دیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں جو بائیڈن اور آصف علی زرداری مستقل رابطے میں ہیں۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد تک، جو بائیڈن نے اپنی تمام سرکاری اور نجی مصروفیات منسوخ کر دی ہیں۔
اس ضمن میں دنیا کی تمام استعماری طاقتیں ایک صفحے پر ہیں۔ لیکن عمران خان آہن و فولاد کی چٹان کی طرح ڈٹا ہوا ہے۔ پاکستان کے ”فتنہ گر عناصر“ اور مغربی استعمار بھول گئے ہیں کہ خان صاحب کے ”پیکر خاکی“ میں کیسی بجلیاں بھری ہیں۔ 2014 ء میں، چہار ماہی دھرنے کے دوران، ریڈ زون میں فاتحانہ داخلے، وزیراعظم ہاؤس کی ناکہ بندی، پی ٹی وی پر یلغار، پولیس افسران پر تشدد، بجلی کے بل نذرآتش کرنے، ٹیکس نہ دینے کا فرمان جاری کرنے، سول نافرمانی کی تلقین کرنے، رقوم کی ترسیل غیرقانونی ہنڈی کے ذریعے کرنے جیسے تاریخی اقدامات کیے۔ انتہائی ہنرمندی سے دوست ملک چین کے صدر کے دورۂ پاکستان کو سبوتاژ کیا۔ سو وہ بھارت کا دورہ کر کے واپس چلے گئے۔ کامل چار ماہ تک لوگوں نے دیکھا کہ خان صاحب کی آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں، چہرہ فرط غضب سے تمتما رہا ہے، ماتھے پر سلوٹوں کا گھنا جال پھیلا ہوا ہے اور بدن کے انگ انگ سے خونخواری پھوٹ رہی ہے۔ اس سارے عرصے میں صرف اس شام خان صاحب کے ہونٹوں کے کنارے افق تا افق پھیل گئے تھے اور ایک بشاشت بھری فاتحانہ مسکراہٹ ان کے تمتماتے چہرے پر بکھر گئی تھی جس شام انہیں پنڈی کے ایک بڑے گھر سے ملاقات کی دعوت آئی تھی۔
وقت نے کروٹ لی۔ پاکستان کے عوام کے مقدر نے یاوری کی اور اگست 2014 ء میں آتشیں دھرنے دینے والے خان صاحب اگست 2018 ء میں وزیراعظم بن گئے۔ اب اس بات کو بھی ساڑھے تین برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ خان صاحب اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق پاکستان کی تقدیر بدل ڈالنے کے بعد ایک بار پھر اسی ریڈ زون کا رخ کرنے چلے ہیں۔ میرؔ نے کہا تھا
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
وزیراعظم ہاؤس میں خان صاحب کا ساڑھے تین سالہ قیام بھی ماندگی کا ایک وقفہ تھا۔ تھکن اتارنے کے بعد اب وہ وزیراعظم ہاؤس کے باہر جوہر دکھانے کو ہیں۔ اس دوران ان کی ”آتش بیانی“ ، ”آتش دہانی“ بلکہ ”لاوا فشانی“ تک پہنچ گئی ہے۔ وہ آئین و قانون کی نزاکتوں پر بھی اس قدر دسترس حاصل کر چکے ہیں کہ پاکستان بلکہ دنیا کا کوئی دوسرا قانون دان ان کی ہمسری نہیں کر سکتا۔ اسی قانونی بصیرت و بصارت کے بل بوتے پر جناب وزیراعظم نے آئین کے آرٹیکل 63 کی ایسی تشریح کی ہے جس سے کرۂ ارض کا کوئی دوسرا قانون دان اتفاق نہیں کرتا۔
آرٹیکل 63 کا عنوان ہے ”Disqualification on Grounds of Defection,ETC“ اردو ترجمہ اس کا ہے ”انحراف کی بنیاد پر نا اہلیت“
اس عنوان ہی سے آشکار ہے کہ نا اہلیت کا عمل صرف ’انحراف‘ کی بنیاد پر حرکت میں آئے گا۔ انحراف کی سوچ، انحراف کی نیت یا انحراف کا ارادہ، اس آئینی شق کے تحت، کسی طور نا اہلیت کا جواز نہیں بن سکتے۔ حکومت پاکستان کے طبع کردہ، آئین پاکستان کا اردو ایڈیشن اس وقت میرے سامنے ہے۔ آرٹیکل 63 ( 1 ) کی شق ’ب‘ کہتی ہے۔
(ب) اس پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جس سے اس کا تعلق ہو، جاری کردہ حسب ذیل سے متعلق کسی ہدایت کے برعکس ایوان میں ووٹ دے یا ووٹ دینے سے اجتناب کرے۔
(اول) وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخاب، یا (دوم) اعتماد یا عدم اعتماد کے ووٹ، یا (سوم) کسی مالی بل یا دستوری (ترمیمی) بل
مذکورہ شق کے واضح الفاظ ہیں۔ ”ووٹ دے یا ووٹ دینے سے اجتناب کرے“ موجودہ صورت حال میں پی ٹی آئی کا جو رکن، عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے گا، وہ اس شق کی زد میں آئے گا۔ اسی طرح تحریک عدم اعتماد کی محرک اپوزیشن جماعتوں کا جو رکن، قرارداد عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے سے اجتناب کرے گا، وہ بھی انحراف کی زد میں آئے گا۔
آئین کی شق 63 صرف اس اصول تک محدود نہیں۔ وہ غیر مبہم الفاظ میں، نہایت وضاحت کے ساتھ بتاتی ہے کہ پارٹی ہدایات کے برعکس ووٹ دینے والا رکن کس طریقۂ کار کے تحت رکنیت سے محروم کیا جائے گا۔ آئین کے مطابق یہ طویل عمل ہے۔
( 1 ) پارٹی کا سربراہ، انحراف کرنے والے رکن کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرے گا کہ پارٹی ہدایت کے برعکس ووٹ دینے یا نہ دینے پر کیوں نہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے!
( 2 ) اظہار وجوہ کے جواب سے نامطمئن ہونے کی صورت میں پارٹی کا سربراہ تحریری طور پر اعلان (Declaration ) جاری کرے گا۔
( 3 ) اس اعلان یا فرمان کی نقول افسر صدارت کنندہ، چیف الیکشن کمشنر اور متعلقہ رکن کو بھیجی جائیں گی۔
( 4 ) اس اعلان (ڈیکلریشن) کی وصولی پر، افسر صدارت کنندہ (سپیکر) دو دن کے اندر اندر یہ اعلان چیف الیکشن کمشنر کو ارسال کرے گا۔
( 5 ) اگر افسر صدارت کنندہ (سپیکر) دو دن کے اندر اندر ایسا نہیں کرے گا، تو خودبخود تصور کر لیا جائے گا کہ یہ ڈیکلریشن چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دیا گیا ہے۔
( 6 ) چیف الیکشن کمشنر پابند ہو گا کہ تیس دن (ایک ماہ) کے اندر اندر اس ڈیکلریشن کی توثیق کر کے رکن کو نا اہل قرار دے یا اس کے برعکس فیصلہ دے۔
( 7 ) اگر چیف الیکشن کمشنر توثیق کر دے تو مذکورہ رکن نا اہل ٹھہرے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔
( 8 ) مذکورہ رکن، یا پارٹی، نامطمئن ہونے کی صورت میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکیں گے۔ ( 9 ) اس اپیل کے لئے ہر فریق کے پاس ایک ماہ کا وقت ہو گا۔
( 10 ) سپریم کورٹ نوے دن (تین ماہ) کے اندر اندر اس کا فیصلہ کرے گی جو حتمی ہو گا۔ یہ تمام تفصیلات خود آئین میں درج ہیں۔ کسی ذیلی قانون، ضابطہ کار، رولز آف بزنس وغیرہ کا حصہ نہیں۔ اس آئینی طریق کار کے مطابق، کوئی بھی رکن، اپنی پارٹی سے عملی (خیالی اور امکانی نہیں ) انحراف کے بعد کم و بیش چار ماہ تک ایوان کا حصہ رہے گا۔ وہ اس دوران اپنا ووٹ استعمال کر سکتا ہے۔ اسے بطور رکن تمام مراعات حاصل ہوں گی۔ سپیکر اسد قیصر نے جب قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی قانونی برانچ سے پوچھا تو بھی یہی رائے ملی کہ آئین کی رو سے سپیکر کا کردار صرف اس وقت شروع ہو گا جب کوئی رکن عملی طور پر انحراف کا مرتکب ہو جائے گا اور اس کے خلاف عمران خان باضابطہ طور پر ایک ڈیکلریشن جاری کر دیں گے۔
عمران خان کی رائے اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جوں ہی کوئی رکن، ان کی حکم عدولی کا خیال فاسد اپنے دماغ میں لائے گا، اسی لمحے نا اہل ہو جائے گا۔ اس کے بعد نہ وہ ایوان میں داخل ہو سکتا ہے نہ ووٹ دے سکتا ہے۔ گویا، ان کے فہم قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کہے کہ میں غربت سے تنگ آ کر چوری کرنا چاہتا ہوں، اسی وقت پکڑ کر اس کا ہاتھ قلم کر دینا چاہیے۔
اب طے پایا ہے کہ آرٹیکل (A) 63 کی وضاحت کے لئے حکومت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر رہی ہے۔ مجھے تو اس میں عالمی سازش کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ امکانی طور پر یہ سازش خان صاحب کے کسی مشیر کی بھی ہو سکتی ہے۔ ورنہ جب خان صاحب نے آئین کی تشریح کر دی ہے تو پھر سپریم کورٹ سے رجوع کی کیا تک ہے؟