عمران خان کی آنکھوں پر اُن کی مقبولیت نے ایسی پٹی باندھ دی کہ وہ اپنا راستہ ہی گم کر بیٹھے۔ ان کی کامیابی اور ناکامی کا مرکزی عنصر ان کا اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے خبط ہے۔ وہ اس کی قیادت کے بارے میں سرد و گرم بیانات داغتے رہتے ہیں۔ پل میں تولا پل میں ماشہ کی عملی تصور بنے ہوئے ہیں۔ ”ایک صفحے“ پر ہونے کا خبط اُن کے ذہن پر اس طرح سوار ہے کہ صفحہ کیا پلٹا، ان کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی۔ جب ان کی حمایت کرتے تھے تو وہ بہت بڑے ”محب وطن“ تھے۔ اب جب کہ وہ نیوٹرل ہیں، وہ ایسے ”جانور“ ہیں جنھیں صحیح (عمران) اور غلط (دیگر تمام سیاست دان) کی پہچان ہی نہیں رہی۔ گزشتہ ہفتے عمران خان نے گرجتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کے ”شیر وں“ کی قیادت ایک ”گیدڑ“ کر رہا ہے (ظاہر ہے کہ اشارہ کس کی طرف ہے)، جسے گیدڑوں کی ایک فوج شکست سے دوچار کرے گی جس کی قیادت ایک شیر (ظاہر ہے کہ اشارہ کس کی طرف ہے) کررہا ہے۔
عمران خان کہا کرتے تھے کہ جب وہ وزیر اعظم بنیں گے وہ کبھی بھی کسی آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دیں گے۔ لیکن وہ تاریخ میں ایسے وزیر اعظم کے طور پر دیکھے گئے جس نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کے لیے قانون ہی تبدیل کر ڈالا۔ کہا کرتے تھے کہ آرمی چیف کی نامزدگی وزیرا عظم کا استحقاق ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو نومبر میں آرمی چیف کو نامزد نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی بجائے اُنھیں جنرل باجوہ کی مدت کو اگلے انتخابات تک توسیع دے دینی چاہیے تاکہ انتخابات جیت کر وہ (عمران خان)اگلا آرمی چیف نامزد کرسکیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا نامزد کردہ کوئی بھی آرمی چیف ”محب وطن“ نہیں ہوگا۔ اس طرح اُنھوں نے تمام لیفٹیننٹ جنرلوں، جو ممکنہ طور پر آرمی چیف ہوسکتے ہیں، کو بیک جنبش قلم متنازع بنا دیا ہے۔ وہ جنرل باجوہ کو بطور ایک جمہوریت پسند اور محب وطن افسر سراہتے تھے۔ اب وہ اُنھیں برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ صرف یہی نہیں، ان کے کمانڈروں کو اُن کے خلاف بغاوت پر بھی اکسانے سے باز نہیں آتے۔
عمران خان کا موقف تھا کہ اُنھیں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے نکال باہر کرنے کی بجائے اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیں گے اور لاکھوں حامیوں کے جتھے لے اسلام آباد پر چڑھائی کرکے حکومت کا غیر جمہوری طور پر تختہ الٹ دیں گے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب وہ وزیر اعظم بنیں گے تو کبھی معاشی پیکج لینے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ لیکن اقتدار میں آتے ہی اُنھوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ چھے بلین ڈالر قرض کا پیکج لے لیا۔ اب جب کہ وہ حکومت سے باہر ہیں، وہ موجودہ حکومت کو اسی پیکج پر دستخط کرنے کی وجہ سے شرمندہ کررہے ہیں۔بلکہ یہاں تک کہ وہ اس پروگرام کو اپنے حامیوں کے ذریعے سبوتاژ کر نے کے درپے ہیں۔
کہا کرتے تھے کہ گزشتہ مارچ کو امریکہ نے اُن کے اقتدار کی تبدیلی کی سازش کی اور ”امپورٹڈ حکومت“ کے اقتدار پر براجمان ہونے کا راستہ ہموار کیا۔ اب وہ واشنگٹن میں سی آئی اے کے سابق افسران کی لابی کی خدمات حاصل کرتے ہوئے امریکی حکومت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش میں ہیں۔اُنھوں نے اسلام آباد میں امریکی وفد کا گرم جوشی سے استقبال کیا جس نے خیبرپختونخواہ حکومت کو کچھ امداد فراہم کی تھی۔
وہ نیب، ایف آئی اے اور ان کے سربراہان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے جب وہ اُن کے سیاسی حریفوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ اب جب کہ ان اداروں نے اپنا قبلہ درست کرلیا ہے تو عمران خا ن نے ان کی توہین کو اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ کئی برسوں تک وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اس کی کمشنروں کے معترف تھے جب تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس سرد خانے کی نذر تھے۔ اب وہ کیسز میں پیش رفت ہوتی دیکھ کر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔
عدلیہ کی اُس وقت تعریف کرتے تھے جب وہ ایگزیکٹو کی اطاعت گزار تھی۔ لیکن اب جب کہ عدلیہ نے دباو کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا ہے، وہ دن رات اس کی مذمت کرتے نہیں تھکتے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ ججوں کے خلاف اپنے بیانات پر کبھی معافی نہیں مانگیں گے۔ اب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگنے جارہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی پی ڈی ایم سے بات نہیں کریں گے۔ اب اُنھوں نے تحریک انصاف کے وفادار کارکن عارف علوی کو ”خفیہ بات چیت“ کا عمل شرو ع کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ وہ اپنی پارٹی کے لیڈروں کو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ”مذاکرات“ کرنے بھیجا کرتے تھے۔ اب اُنھوں نے اپنی جماعت کے لیڈروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کا ابلاغ کرنے سے باز رہیں۔
ایک وقت تھا جب بہت سے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسراُن کے حامی تھے۔ اب وہ عمران خان کے بھڑکیلے اور خطرناک رویے کو دیکھ کر اس کی حمایت سے قدم پیچھے ہٹا رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب جوشیلے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان کے جلسوں میں جوق در جوق جاتے اور ان کے ایک ایک لفظ کو ذہن نشین کرتے۔ آج وہ اُن کے دہرائے جانے والے بیانیے کو سن سن کرتنگ آچکے ہیں۔ ان کی جلسوں میں شرکا تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
گزشتہ ہفتے عمران خان نے اپنے وفاداروں کو بتایا کہ ”اب یا کبھی نہیں“ کا مرحلہ آچکا۔ اُنھیں خوف ہے کہ اگر پی ڈی ایم حکومت کا جلد تختہ نہ الٹا گیا تو وہ اگلے آرمی چیف کو نامزد کردے گی، معیشت سدھارلے گی اور اقتدار پر گرفت مضبوط کرلے گی۔ اس صورت میں اُن کی حمایت ہوتی جائے گی، اور پی ڈی ایم کو اگلے برس کے اختتام کے قریب ہونے والے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔
اُنھوں نے اسلام آباد کی طرف جلد ہی لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا، لیکن اس کی حتمی تاریخ کا اعلان کرنے سے گریز کیا۔ اُنھیں بجا طور پر ڈر ہے کہ جب اسٹبلشمنٹ پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ کھڑی ہے تو لانگ مارچ کامیاب نہیں ہوگا۔ اس ا صورت میں ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ا س کا آغاز کئی ایک ٹھوس وجوہات کی بناپر الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیے جانے سے ہوگا۔
عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ جتنی دیر بھی پی ڈی ایم اقتدار میں رہے گی، ان کے لیڈر کی ہر آن بڑھتی ہوئی مقبولیت کے سامنے اس کی ساکھ مزید گرتی جائے گی۔ لیکن اسی سانس میں وہ فوری طور پر تازہ انتخابات کا مطالبہ بھی کرتے ہیں کیوں کہ اُنھیں خدشہ ہے کہ اُن کا لیڈر عوامی مقبولیت اور اسٹبلشمنٹ کا اعتماد کھورہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان، عمرعطا بندیال نے عمران خان کو بن مانگے، لیکن مفید مشورہ دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں واپس چلے جائیں اور عدلیہ کو مسلسل سیاسی تنازعات میں گھسیٹنے کی بجائے اپنے سیاسی مسلے وہیں طے کریں۔
اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ نے آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر عمران خان سے خود کو دور کرنا شروع کردیا ہے۔ ان کے نوجوان حامی تھکاوٹ اور مایوسی کا شکار ہیں۔ تحریک انصاف میں ان کے سینئر ساتھی اُن کی ڈرامائی قلابازیوں پر حیران پریشان ہیں۔ وہ ایک ایسے بے چین اور خبطی انسان کی طرح دکھائی دے ہیں جو حقیقت کی دنیا سے بہت دور نکل آیا ہو۔ اگر وہ اسی لاابالی پن کا مظاہرہ کرتے رہے تو وہ خود کو اور پاکستان کو ناقابل تصور نقصان پہنچا بیٹھیں گے۔