یہ کوئی سات برس قبل، اگست 2014ء کی ایک حبس زدہ صبح تھی۔ برسات کی نمی سے بوجھل ہوا ساکن تھی۔ عمران خان کے ''انقلاب مارچ‘‘ اور علامہ طاہرالقادری کے ''آزادی مارچ‘‘ کے آتش بجاں قافلے تمام رکاوٹوں کو روندتے ہوئے، شاہراہِ دستور کے منطقہِ سُرخ (ریڈ زون) میں خیمہ زن ہو چکے تھے۔ وزیراعظم نواز شریف کو بے دخل کرنے کیلئے حلف لئے جا رہے تھے۔ فدائین اور جانثاروں کے کفن پوش دستے نعرہ زن تھے۔ قبریں کُھد چکی تھیں اور بڑی بے چینی سے ''شہدا‘‘ کو آغوش میں لینے کا انتظار کر رہی تھیں۔ میں اپنے ڈرائیور کے ہمراہ گھر سے نکلا۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں واقع دفتر تک جانا ممکن نہ تھا۔ زبردست ناکہ بندیوں سے بچتا بچاتا، مارگلہ روڈ سے ایک کچی پگڈنڈی سے ہوتا، بری امام کو جاتی سڑک کے ذریعے میں وزیراعظم ہائوس کے عقبی دروازے سے اندر داخل ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف اپنے دفتر میں، اپنی مخصوص نشست کے بجائے مہمانوں کے لیے وقف ایک کرسی پہ بیٹھے تھے۔ وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ بھی تشریف فرما تھے۔ علیک سلیک کے بعد میں نے بھی ایک نشست سنبھال لی۔ چینی صدر کا مجوزہ دورۂ پاکستان موضوعِ گفتگو تھا جو دھرنوں کے سبب منسوخ ہو رہا تھا۔ میاں صاحب نے گھنٹی بجا کر چائے کیلئے کہا۔ چند لمحوں بعد وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری، بریگیڈیئر اکمل نے دفتری رَکھ رکھائو کو نظر انداز کرتے ہوئے دھڑام سے دروازہ کھولا، فوجی انداز کا سلیوٹ کیا اور کسی تمہید کے بغیر بولے ''سر! بیڈ نیوز (بُری خبر) دھرنے والے لوگ سارے ناکے توڑ کر پی ایم ہائوس کے بڑے داخلی دروازے پر قابض ہو گئے ہیں‘ جنوبی گیٹ پر بھی آ گئے ہیں، ہجوم بہت بپھرا ہوا ہے، سر! یہ جتھے کسی بھی وقت یہاں پہنچ سکتے ہیں‘ اس وقت ہمارے لئے صرف ہیلی پیڈ والا راستہ کھلا ہے‘ ہیلی کاپٹرز تیار ہیں‘ہمیں فوراً نکل جانا چاہیے‘‘۔ عبدالقادر بلوچ نے کچھ کہنا چاہا لیکن وزیراعظم نے انہیں چپ کرا دیا۔ پھر وہ پنجابی میں ملٹری سیکرٹری سے کہنے لگے ''جی بریگیڈیئر صاحب، فیر کی کیتا جائے‘‘۔ (جی بریگیڈیئر صاحب، پھر کیا کیا جائے) بریگیڈیئر صاحب نے پھر اپنی بات دوہرائی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بولے ''سر! ہجوم بہت بپھرا ہوا ہے‘ یقینا ان کے پاس ہتھیار بھی ہوں گے‘ یہ لوگ کسی بھی وقت اندر آ سکتے ہیں‘‘۔ میاں صاحب نے پنجابی ہی میں کہا ''آندے نے تے آنڑ دیو! ہنڑ جے وزیراعظم اسی طرح بنڑا اے تے آجانڑ۔ بہہ جانڑ کرسی تے‘‘ (آتے ہیں تو آنے دیں، اب اگر وزیراعظم اسی طرح بننے ہیں تو آ جائیں۔ بیٹھ جائیں کرسی پر) بریگیڈیئر صاحب حیران کھڑے یس سر، یس سر کہتے رہے۔ میاں صاحب نے کہا ''بہہ جائو تسی وی‘ چاء آ رہی اے، پیو‘‘ (بیٹھ جائیں آپ بھی‘ چائے آ رہی ہے، پئیں)
میری یادداشتوں کی بیاض ایسی کتنی ہی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسی لاتعداد کہانیاں ستتر سالہ تاریخ کے اوراقِ پریشاں میں بھی کسمسا رہی ہیں۔ انہونیوں کے آسیب نے جمہوری عمل کو ہمیشہ جانکنی کی کیفیت سے دوچار رکھا۔ جمہوریت تلوار سے تیز اور بال سے باریک پل صراط پر ہی چلتی رہی۔ دنیا کی ہر ہوش مند قوم یہ سبق سیکھ چکی ہے کہ ترقی و خوشحالی، عزت وقار، معیشت کی مضبوطی اور ریاست کی ہمہ پہلو توانائی کے سارے دھارے ایک ہی سر چشمۂ فیضان سے پھوٹتے ہیں، جس کا نام ہے ''سیاسی استحکام‘‘۔ ہمارے ہاں کوئی شے اتنی مقدس و محترم نہیں رہی جسے قومی سلامتی، ملکی عزت و وقار اور جمہوری تشخص کی مقدس علامت سمجھا جاتا‘ جسکی طرف زورآور بھی میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکتے۔ آئین... تو بقول میرؔ ''یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا‘‘۔ قانون۔۔۔۔۔ تو ہر طاقتور کے ہاتھ کی چھڑی اور ہر صاحب اختیار کی جیب کی گھڑی۔ انصاف۔۔۔۔ تو جاگتی آنکھوں کے بے ثمر خواب۔ ایک بھی خیمۂ عافیت ایسا نہیں جس کے بارے میں یقین ہوکہ آندھی چلے، مینہ برسے یا سیلاب آئے، کوئی ہماری اس پناہ گاہ کی طنابیں نہیں کاٹ سکتا۔ سو سیاسی عدم استحکام ہمارا مقدر ہو گیا۔ اگر موسم کی کسی مہربان کروٹ سے ملک، استحکام آشنا ہوتا دکھائی دیا، جمہوریت کے درودیوار مضبوط ہونے لگے، بے یقینی کی دھند چھٹنے لگی تو یکایک بھاری ریکٹر سکیل کا زلزلہ آیا اور سب کچھ تاخت و تاراج کر گیا۔ زلزلہ تھم جانے کے بعد جمہوریت لباس سے گردوغبار جھاڑتی، اپنے زخموں کو سہلاتی، پھر سے سرگرمِ سفر ہوئی تو بھی زلزلے کے ارتعاشِ مابعد (After shocks) کے سلسلے نے چین نہ لینے دیا۔
ورلڈ بینک کے اعدادوشمار پرمبنی ایک اشاریہ یا انڈیکس ہرسال جاری ہوتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ مختلف ممالک میں سیاسی استحکام کا عالم کیا ہے۔ 2019ء کی رپورٹ کے مطابق 195 ممالک میں سے پاکستان 189ویں نمبر پر تھا۔ صرف پانچ ملک ہم سے نیچے تھے‘ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن۔ یہ پانچوں ممالک بیرونی جارحیت، خانہ جنگی یا اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔ اشاریے میں ہمارے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا افغانستان چالیس برس سے جنگ و جدل کی آگ میں بھسم ہو رہا ہے۔ ہم اللہ کے فضل و کرم سے خارجی جارحیت، اندرونی خانہ جنگی یا فتنہ و فساد سے پاک ہیں۔ تو پھر ہم کیوں سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے انتہائی پست مقام پر کھڑے ہیں؟ کیوں زندگی کے ہر شعبے میں زوال ہمارا مقدر ہوگیا ہے!
گزشتہ دنوں، تین سالہ عہدِ انقلاب کے چوتھے وزیر خزانہ، شوکت ترین نے کہا ''جی ڈی پی بہتر بنائے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ ہمیں بھرپور کوشش کرنا ہوگی کہ معیشت کی شرح نمو کو 2018ء کی سطح پر لایا جائے‘‘۔ 2018 میں معیشت کی شرح نمو 5.8 فیصد تھی اور تمام عالمی ادارے پاکستان کو ترقی کے زینے پہ چڑھتے ملک کے طور پر پیش کررہے تھے۔ معیشت، بیروزگاری، مہنگائی، بیرونی سرمایہ کاری، انفراسٹرکچر... تمام حوالوں سے اس حکومت کی کارکردگی، آج کے دو رُخے نظام سے کہیں بہتر تھی۔ اسے تو ایک پیج پر ہونے کا اعزاز بھی حاصل نہ تھا۔ کامل پانچ سال اس کا آشیانہ شاخِ نازک پہ ہلکورے ہی کھاتا رہا۔ پھر کیا ہوا؟
''سیاسی استحکام‘‘ کو آواز دی گئی۔ بڑی محنت، ریاضت اور عرق ریزی سے، کھڑی فصل کو جلا کر، نئے سرے سے ہل چلا کر، ایک نو دریافت، ترقی دادہ بیج کاشت کیا گیا، بڑی لگن سے اس کی آبیاری کی گئی، ڈھور ڈنگروں سے حفاظت کیلئے اس کے گرد مضبوط فولادی جنگلا لگایا گیا۔ پہرہ بٹھایا گیا‘ لیکن آج تین سال بعد ایک خاردار، بے ثمر فضل لہلہانے لگی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی آکاش بیل نے شجرِ معیشت کی ہریالی کی بوند بوند کو چاٹ لیا ہے اور ہم تین سال پیچھے، 2018ء کو منزلِ مراد بنا کر نیا سفر شروع کر رہے ہیں۔ میں نے کالم کی ابتدا میں اس صبحِ کم نصیب کا ذکر کیا تھا جب وزیراعظم ہائوس بلوائیوں کے گھیرے میں تھا اور طاہرالقادری اپنے خطیبانہ آہنگ میں فاتحانہ تفاخر سموتے ہوئے اعلان کر رہے تھے ''ہم نے وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کر لیا ہے‘‘۔ انہی دھرنوں کے دامن میں وہ سیاہ بخت رات بھی پڑی ہے جب وزیراعظم کو نصف شب جگا کر پیغام سنایا گیا کہ ''سلامتی چاہتے ہو تو استعفا دے کر گھر چلے جائو‘‘
افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن کی لڑی میں پرویا ایٹمی پاکستان، بائیس کروڑ انسانوں کی بستی ہے۔ وہ اس حوالے سے بھی پانچوں ممالک سے مختلف ہے کہ خارجی مہم جوئی کا تختۂ مشق نہیں۔ اسے تو شعوری کاوش و ریاضت کے ساتھ عدمِ استحکام کے اس مقامِ مطلوب، تک پہنچایا گیا، جہاں کھڑے ہو کر ہمیں تین سال پہلے کا پاکستان، یاد آنے لگا ہے۔ میرے دوست امجد اسلام امجد نے درست ہی کہا تھا؎
نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
یہ معجزہ تو مرے دستِ بے ہُنر سے ہوا
Source: روزنامہ دنیا
Link: https://dunya.com.pk/index.php/author/irfan-siddiqui/2021-05-30/35443/55705899#.YLMcNUrQowQ.whatsapp