عمران خان اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں اور آئینی طور پر 3 اپریل 2022 کو ووٹ کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برخاست ہو جائیں گے۔ درحقیقت اگر وہ قومی اسمبلی کے سپیکر یا صدرِ پاکستان کے ذریعے اپنی سیاسی زندگی کے دورانیے کو چال بازی سے تھوڑا سا طول دینے کے لیے غلط طریق کار اپناتے ہیں، تب بھی وہ زیادہ دیر نہیں نکال پائیں گے۔ اپنی زندگیاں اجیرن بنادینے پر لوگ غصے سے دیوانے ہورہے ہیں۔ اپوزیشن چار سال کی بربریت کا بدلہ لینے کے لیے متحد ہے۔ اسٹبلشمنٹ ایک صفحے کے بیانیے سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اپنی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے۔ زخمی میڈیا معاف کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اعلیٰ عدالتیں قومی مزاج کو سمجھتی ہیں اور اب انہیں مزید ڈھیل نہیں دیں گی۔
عمران خان کو اخلاقی اور اصولی راستہ اختیار کرتے ہوئے استعفیٰ دینا چاہیے تاکہ اقتدار کی منتقلی ہموار طریقے سے عمل میں آئے۔ ملک یقینا امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ آخری دم تک لڑیں گے۔ آخری کوشش کے طور پر اُنھوں نے ایک خط لہرایا ہے۔ یہ خط واشنگٹن میں پاکستان کے سبکدوش ہونے والے سفیر، اسد خان کی طرف سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو لکھا گیا۔اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ امریکہ تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے کی ”سازش“کر رہا ہے۔ اس وقت خط کے انکشاف کا مقصد پاکستانیوں، اراکین پارلیمنٹ اور اسٹبلشمنٹ کو اپنے کے ساتھ کھڑے ہونے اور اس ”سازش“ کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ عمران خان کا حسب معمول الزام ہے کہ اپوزیشن نے مبینہ طور پر پاکستان کو بیچ دیا ہے۔
”خط“ پر عمران خان کا موقف جان بوجھ کر مبہم اور غیر واضح رہا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے اسے ڈرامائی انداز میں تحریک کے ایک ہجوم کے سامنے لہراتے ہوئے تاثر دیا کہ یہ ان کی حکومت کے خلاف غیر ملکی طاقت کی طرف سے ایک مہیب خطرہ ہے۔ پھر اعتراف کیا کہ یہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی طرف سے ایک سینئر امریکی اہلکار کے ساتھ بات چیت کی اندرونی کیبل تھی۔ بعد میں انکشاف کیا کہ انھوں نے اسے قومی سلامتی کے اہم اسٹیک ہولڈرز اور اپنی کابینہ کے ساتھ شیئر کیا تھا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے پارلیمنٹ کو ''ان کیمرہ'' بریف کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ لیکن وہ خط کے وجود میں آنے یا اس کے مواد کی صداقت کی جانچ کے لیے درکار تحقیقات کا حکم دینے سے گریزاں رہے۔
تاہم اب تک ''سازش'' کہانی کو تمام اسٹیک ہولڈرز مسترد کر چکے ہیں۔ این ایس سی نے امریکہ کے حوالے سے ایک سیاسی بیان دیا ہے۔امریکہ سرکاری طور پر کسی بھی دھمکی کی تردید کرتا ہے۔ درحقیقت تحقیقات کا مطالبہ بڑھ رہا ہے کیونکہ اس خط کے سیاق و سباق پر شکوک و شبہات کا پردہ پڑا ہے۔ یہ پراسرار طریقے سے 7 مارچ کوحزب اختلاف کی طرف سے 8 مارچ کو عدم اعتماد کی قرار داد پیش کرنے کے موقع پر پہنچا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ متن میں اس کا حوالہ دیا گیا ہے، اور اسے واشنگٹن میں پاکستان کے سبکدوش ہونے والے سفیر، اسد خان نے لکھا ہے۔ اسد خان اسلام آباد واپس آئے لیکن 27 مارچ کو برسلز میں پاکستانی سفارت خانے کا چارج سنبھالنے کے لیے 28 مارچ کو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی قرارداد پیش کیے جانے سے ایک دن قبل روانہ ہوگئے تاکہ وہ اسلام آباد میں تبصرے یا ثبوت کے لیے دستیاب نہ ہوں۔
عمومی خیال یہ ہے کہ اسد خان پرحکومت نے دفتر خارجہ کے ذریعے دباؤ ڈالا تھا کہ برسلز میں تقرری کے بدلے میں ایسا خط لکھ دیں۔ اسی لیے حکومت لیٹر گیٹ کی تحقیقات کا حکم دینے سے انکار کر رہی ہے۔ درست ہے یا نہیں، جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ برسلز میں سفیر کو اگلی حکومت مناسب وقت پر واپس بلائے گی تاکہ یہ وضاحت ہوسکے کہ اصل کہانی کیا تھی؟
بہت سے سنگین تحفظات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ وزیراعظم ہفتوں خط چھپائے کیوں بیٹھے رہے اور پہلے ایکشن کیوں نہیں لیا؟ وزیر خارجہ نے ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کو اسلام آباد میں او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت کیوں دی اور اگر سب کچھ ٹھیک نہیں تھا تو اس عہدیدار سے اپنی ملاقاتوں پر عوامی سطح پر اطمینان کا اظہار کیوں کیا؟ وزیر اعظم اپنی کہانی کو خفیہ رکھنے کی ضرورت کے بارے میں بیان کیوں بدلتے رہے؟ اسے قومی سلامتی اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کیا اگر واقعی خطرہ اتنا سنگین تھا؟ دو سفارت کاروں کے درمیان کسی بھی معمول کے پیغامات کے تبادلے کو پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ بنا کر کیوں پیش کیا گیا کہ یہ محض ایک پاکستانی اہلکار کے تاثرات کی عکاسی کرتا ہے؟ بنیادی امریکی مفادات کے خلاف عمران خان کے کس سخت فیصلے نے صدر جو بائیڈن کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی پر اکسانے کی مخالفت کی ہے؟
دریں اثنا، عمران خان کی مایوس کن حماقتوں نے پاکستان کو ایک خوفناک سفارتی دلدل میں اتار دیا ہے۔ مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور اس کے مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بہت نچلی سطح پر ہیں۔ اور یہ وہ ممالک ہیں جن کے ساتھ ہم بنیادی طور پر اشیا اور خدمات کی تجارت کرتے ہیں اور جن کی امداد اور قرضوں کی ہمیں ضرورت رہتی ہے۔ ان طاقتوں کی جانب سے لائف لائن سپورٹ پر معیشت کے ساتھ، عمران خان کی وراثت اگلی حکومت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ گویا عمران خان نے جان بوجھ کر اگلی حکومت کے لیے ٹائم بم نصب کر دیا ہے تاکہ اسے بڑے خطرے سے دوچار کیا جاسکے۔
اب عمران خان نے اسی اپوزیشن سے آخری لمحے کا ”این آر او“ مانگ لیا ہے جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگست میں عام انتخابات کے اعلان کے بدلے اپوزیشن عدم اعتماد واپس لے۔ یہ ''ڈیل'' اسٹبلشمنٹ کے ذریعے حزب اختلاف کے اعلیٰ سطحی قائدین تک پہنچائی گئی۔ اور، جیسا کہ توقع تھی، اسے یکسر مسترد کر دیا گیا۔ بہر حال تحریک انصاف کے پروپیگنڈا کرنے والے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں۔ تاثر ارزاں کیا جارہا ہے کہ ڈیل ہوچکی ہے تاکہ تحریک انصاف کے اتحادیوں اور منحرفین کو واپس بلایا جا سکے۔
وہ 3 اپریل کو عدم اعتماد کے ووٹ کے موقع پر 2 اپریل کو پارلیمنٹ کے سامنے ایک بڑی ریلی بلانے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ اس کا مقصد ایک بار پھر اپنے مخالفین کو دھمکانا اور اسٹبلشمنٹ، عدالتوں اور مخالفین پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ دریں اثناء ان کا سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ جی ایچ کیو پر سابق فوجیوں کی جانب سے عمران خان کی حمایت کے بیانات کی بمباری میں مصروف ہے۔
اپنے انجام سے بچنے کی مایوس کن کوشش میں عمران خان جمعرات کی رات قوم کے سامنے آئے۔ لیکن یہ سب بیکار تھا۔ تقریر میں بار بار دہرائے جانے والے بیانات کا شور تھا۔ زیادہ سے زیادہ اسے باسی کڑھی میں ابال کہا جاسکتا ہے۔ اس تقریر نے انہیں فائدہ پہنچانے کی بجائے ان کی مہلک خامیوں کو بے نقاب کیا۔ آخر میں وہ ایک ناراض، مایوس، فریب میں مبتلا آدمی دکھائی دیے جو جانتا ہے کہ انجام قریب ہے لیکن حقیقت سے انکار کی کوشش میں ہے۔ ان حالات میں عمران خان کا پاکستان پر ایک ہی احسان ہوگا کہ وہ قدم پیچھے ہٹا کر حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھ جائیں اور مستقبل میں سیاسی لڑائی لڑنے کے لیے اپنی قوت بچائے رکھیں۔