یوٹرن کی شدید ضرورت

یوٹرن کی شدید ضرورت

”پاکستان خطرناک جمود کا شکار ہوچکا ہے۔ ہر اشاریے سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔


”معیشت مفلوج ہے۔ اس کی ایک وجہ تو حکومت کی غلط پالیسیاں اور کوروناکے انسداد پر لیے گئے یوٹرن ہیں، دوسری وجہ سیاسی غیر یقینی پن ہے جس کا آغاز پاکستان مسلم لیگ ن کے مقبول وزیر اعظم، نواز شریف کو نکال باہر کرنے کے منصوبے اور عمران کی سلیکشن سے ہواتھا اب عمران خان تیزی سے غیر مقبول ہوتے جارہے ہیں۔


”تحریک انصاف کی حکومت آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ یہ ایک اہم حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار ی ہے: انتخابات سے پہلے مخالف سیاسی راہ نماؤں اور حکمران جماعتوں پر بدعنوانی کے الزامات لگانے کی حکمتِ عملی انتخابات کے بعد شہریوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کارکردگی کا نعمل بدل نہیں ہوسکتی۔


”پی ڈی ایم کی تحریک کودبانا ناممکن ہے۔مرکزی دھارے کی دونوں جماعتیں، پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن اپنی سیاسی مخالفت کو ایک طرف رکھتے ہوئے سیاسی منظر نامے سے اُنہیں ختم کرکے ملک پر یک جماعتی آمریت مسلط کرنے کی تحریک انصاف کی کوشش کے خلاف یکجا ہوچکی ہیں۔ ایک غیر معمولی پیش رفت کے طور پر جمعیت علمائے اسلام بھی ان شانہ بشانہ پوری توانائی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس طرح تحریک انصاف کو بائیں بازو، دائیں بازو اور مرکز کی تمام اہم جماعتوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔


”گویا جمود کو تحریک کاسامنا ہے۔ ریت کا تودا پانی کے دھارے سامنے آگیا ہے۔


”اس دوران سیاسی طور پر غیر جانبدار رہنے کا حلف اٹھانے والے ریاست کے بازو عوام کی نگاہوں میں اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی قیادت پر انتخابات پر اثر انداز ہونے اور قومی مفاد پر ذاتی سوچ کو ترجیح دینے کا الزام ہے۔عدلیہ، جس نے وکلا تحریک کے دوران انقلابی تبدیلی کا وعدہ کیا تھا، سابق چیف جسٹس صاحبان، ثاقب نثار اور آصف کھوسہ کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر اسٹبلشمنٹ کی باندی بن کر رہ گئی ہے، حالانکہ تحریک کے دوران اس نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہی بغاوت کی تھی۔سرکاری افسران جوکبھی بہت فخر سے ریاست اور معاشرے کو قائم رکھنے والا فولادی ڈھانچہ کہلاتے تھے، زرد پتوں کی طرح کمزور اور بے وقعت ہوچکے ہیں۔ اب وہ انتظامی اہمیت کے فیصلے لینے سے خائف ہیں۔


”قوم پرستی کے جذبات عروج پر ہیں۔ بنیاد پرستی کی وجہ سے بھڑکنے والی دھشت گردی کی آگ ابھی تک سرد نہیں ہوئی۔ مودی کے بھارت کی طرف سے خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ حقیقی اور شدید ہے۔ پاکستان کا بیرونی دنیا میں شاید ہی کوئی دوست ہو۔ سعودی عرب جیسے دوست بھی ناراض ہیں۔


”قومی سلامتی کے درپے اس بحران کے ہوتے ہوئے اب آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟


”عام بات یہ کی جاتی ہے کہ کوئی جماعت یا گروہ مسلے کا حل نہیں بتارہا۔ ہر کوئی دوسروں کو مسائل کا ذمہ دارقرار دے رہا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اقتدار اُسے مل جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کے پاس اس بحران سے باہر نکلنے کا پائیدار اور متحرک حل موجود نہیں۔


”اس پریشان کن صورت ِحال کے ساتھ مسلہ ئ یہ ہے کہ اس میں خود فریبی بھی کارفرما ہے اور خود غرضی بھی۔مسلہئ حل کرنے کے لیے کسی قسم کے قومی اتفاق رائے پر زور دیا جاتاہے اگرچہ اس کے لیے ضروری شرائط پورا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اسٹبلشمنٹ نے آزادی کے بعد سے اب تک گزرے برسوں میں سے نصف میں ملک پر براہ ِراست، اور باقی وقت بلواسطہ طور پر حکومت کی ہے۔اس نے انتخابات کو کنٹرول کیا، منتخب شدہ وزرائے اعظم کو ناکام بنایا یا براہ ِراست کارروائی کرتے ہوئے اُنہیں اقتدار سے ہٹا دیا۔ اس نے ون یونٹ، پانچ یونٹ،چار یونٹ کا تجربہ کیا۔ اب یہ چھے یونٹ کے تصور کو اچھال رہی ہے۔ بار ہار اس نے عدلیہ اور میڈیا کی مدد سے آئینی جمہوریت کے تصور کو پامال کیا۔ اسے پاکستان کا اصل مرض سیاست دانوں کی بدعنوانی دکھائی دیتا ہے، لیکن اس دوران یہ اپنی بدعنوانی اور بدانتظامی کا محاسبہ کرنے سے انکاری ہے۔ اپنے کردار کو مسخ کرنے والی گریژن سٹیٹ سول سوسائٹی کے لیے اجنبی اور اس کی دشمن بن چکی ہے۔ ان حالات میں واحد ممکنہ قومی اتفاق رائے وہ یہ ہے جس میں ریاست اور معاشرے کے تمام دھڑے اور اسٹیک ہولڈر اپنا اپنا کردار 1973ء کے آئین کے طے کردہ دائرے میں رہتے ہوئے ادا کریں۔


”موجودہ دلدل نما صورت حال کو دیکھتے ہوئے مخالف سیاسی جماعتوں اور راہ نماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیاں ختم کرنے کے لیے قومی مکالمے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ ان میں سے ایک آواز شہباز شریف کی ہے۔ لیکن عمران خان ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بجائے ان پرعرصہ ئ حیات مزید تنگ کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ اس سادہ سے تصور کو سمجھنے سے قاصرہیں کہ حز ب مخالف نہ صرف محب وطن ہوتی ہے بلکہ وہ آئین کے تحت ہونے والے انتخابات جیت کر آئندہ حکومت میں بھی آسکتی ہے۔ ایک اور تصور یہ ہے کہ اس عمل میں اعلیٰ عدلیہ کو بھی شامل کرلیا جائے۔ لیکن اس سے کام نہیں چلے گاکیوں کہ اس ادارے کا دامن انتخابی غلط کاریوں اور سیاسی وابستگیوں سے آلودہ ہے۔


”اب اپوزیشن جماعتوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی لائحہ عمل نہیں بچا کہ وہ مل کر عمران خان کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کی سعی کریں۔ عام طور پر احتجاجی تحریکیں منتخب شدہ حکومتوں کے لیے خطرے کاباعث نہیں بنتیں، جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے نوازشریف حکومت کے خلاف عمران خان کے دھرنے ناکام ہوگئے تھے۔ لیکن اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج تحریک انصاف کی حکومت اور اس کا سہارا بننے والی اسٹبلشمنٹ عوام کی نگاہ میں انتہائی غیر مقبول ہیں، جبکہ حزب اختلاف کے رہنماوں کا لہجہ روزبروز جارحانہ ہوتا جارہا ہے۔


”تحریک انصاف حکومت ریاستی جبر کا سہارا لے رہی ہے جو حزب اختلاف کومزید مہمیز دے رہا ہے۔ بھڑکے ہوئے جذبات کا ٹکراؤ ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔اگر اسٹبلشمنٹ ملک کو اس تصادم سے بچانے کے لیے یوٹرن نہیں لیتی، ہم ایک گہری کھائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.