جنرل باجوہ کا دہرا کھیل

جنرل باجوہ کا دہرا کھیل

یہ بات تو اب جانی پہچانی ہے۔ جنرل قمرجاوید باجوہ ہمہ وقت ایک ”دہرا کھیل“ کھیل رہے تھے۔ اس سچ کو بے نقاب کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہی اور مونس الہی کا کہناہے کہ گزشتہ مارچ کو عدم اعتماد کے ووٹ کو ناکام بنانے کے لیے آرمی چیف نے انہیں عین وقت پر عمران خان کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا تھا۔ اس دوران اُنھوں نے پی ڈی ایم کو یقین دلایا تھا کہ وہ ”نیوٹرل“ ہیں اور وہ تحریک انصاف سے مایوس ہو کر ان کی طرف آنے والے اتحادیوں پر دباؤ ڈال کر ووٹ تبدیل کرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ لیکن بات اس سے کہیں بڑھ کرہے۔


پی ڈیم ایم کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لیں۔ اس کے بدلے میں عمران خان قومی اسمبلی تحلیل کردیں گے، لیکن اُنھیں ان پر یا عمران کے وعدے پر اعتبار نہیں تھا۔ دوسری طرف  عدم اعتماد پر رائے شماری کے نتیجہ خیز ہونے پرعمران خان نے محسوس کیا کہ جنرل باجوہ نے اُنھیں دھوکے میں رکھا ہے۔ عمران خان نے اُنھیں برطرف کرنے کی دھمکی دی۔ چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو نصف شب ایس او ایس بھیجا گیا گیاتاکہ وزیر اعظم کوایسے کسی بھی اقدام سے بازر کھا جاسکے۔


یہ صرف عمران خان ہی نہیں جنھوں نے جنرل باجوہ پر ”دہرا کھیل“ کھیلنے کا الزام لگا یا ہے۔ پی ڈی ایم کے پاس بھی لگانے کے لیے الزامات ہیں۔ 2021 ء کے آخر میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کی قیادت سے ہٹا کر کورکمانڈر پشاور نامزد کرنے پر عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان تناؤ آگیا۔اچانک پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی قرارداد پیش کردی۔ پی ڈی ایم کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ یہ پیش رفت جنرل باجوہ کی آنکھ کے اشارے کے بغیر ممکن نہ ہوتی۔ لیکن یہ کوئی اتنا سیدھا سادا معاملہ نہیں تھا۔ پی ڈی ایم کو عدم اعتماد لانے میں چار ماہ لگ گئے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ جنرل باجو مختلف بہانوں سے گرین سگنل دینے میں پیس وپیش سے کام لے رہے تھے۔ جنرل نے اُنھیں بتایا کہ وہ ریکوڈک اور آئی ایم ایف کے معاملات پر فکر مند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ رخصت کیے جانے سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت ان پردستخط کردے کیوں کہ یہ امور تازہ انتخابات کی صورت کی صورت ہونے والی تاخیرکے متحمل نہیں ہوسکتے۔اس دوران وہ امید کررہے تھے کہ عمران خان پر دباؤ ڈال کر اپنے ذاتی عزائم پورے کرسکیں گے۔


دہرا کھیل کھیلنے کے پیچھے ان کا ہدف مدت ملازمت میں عمران خان سے ایک اور توسیع لینا تھا۔ یا اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو پھر پی ڈی ایم سے اس کی یقین دہانی حاصل کرنا تھی۔لیکن جب اُنھیں احساس ہوا تو کہ عمران خان تو نومبر 2022   میں جنرل فیض حمیدکو اگلا آرمی چیف بنانے پر تلے ہوئے ہیں تو اُنھوں نے نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ رومانس کرنا شروع کردیا۔ دونوں جہاں دیدہ گھاگ سیاست دانوں نے اُنھیں یقین دلادیا کہ اگر جنرل ان کا مقصد پورا کردیں تو وہ ان کی خواہش کی تکمیل کریں گے۔


جنرل باجوہ کی عین وقت پر چوہدریوں کی حمایت کا رخ عمران کی طرف رخ موڑنے کی کوشش یہ پیغام دینے کے لیے تھی تا کہ عمران خان تمام کھیل سمجھتے ہوئے انھیں عہدے سے نہ ہٹا دیں۔ اُنھوں نے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے دیگر اتحادیوں کو یہی مشورہ نہیں دیا کیوں کہ وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ پی ڈی ایم کا اُن کے ”نیوٹرل“ ہونے سے اعتبار اٹھ جائے۔ وہ چاہتے تھے کہ عمران خان قومی اسمبلی تحلیل کردیں تا کہ وہ تازہ انتخابات کو کنٹرول کرتے ہوئے پی ڈی ایم کو اقتدار میں لے آئیں اور اس کے بدلے ان سے مدت ملازمت میں دوسری مرتبہ توسیع لے سکیں۔ لیکن نہ تو عمران خان اور نہ ہی شریف برادران نے ان کے مشورے کو قبول کیا۔ حکومت تبدیل ہوئی اور اپریل 2022 ء میں ایک نیا منظر نامہ ابھرا۔ جنرل باجوہ نے نئی حکومت کو اپنی بات منوانے کی کوشش کی کہ وہ فوری طور پر تازہ عام انتخابات کا اعلان کردے۔ ممکن ہے کہ ان کی بات مان لی جاتی اگر عمران خان پچیس مئی کو پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی نہ دیتے۔ ان حالات میں پی ڈی ایم نے محسوس کیا کہ خان کی دھمکی کے سامنے پسپائی اختیار کرتے دکھائی دینا انتہائی منفی تاثر ابھارے گاجو انتخابات میں بہت مہنگا ثابت ہوگا۔ اس لیے نواز شریف نے قدم جماتے ہوئے جنرل باجوہ اور عمران خان، دونوں کے سامنے مزاحمت پر کمر باندھ لی۔


عمران خان اب مدد نہ کرنے پر جنرل باجوہ کے خلاف جنگ کے راستے پر چل پڑے۔ معاملات اس وقت بگڑ گئے جب سیاست میں فوج کی مداخلتوں کے خلاف عمومی طور پر اور خاص طور پر جنرل باجوہ کی سازشوں کے خلاف ایک واضح ردعمل سول سوسائٹی اور حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی صفوں میں نمودار ہونا شروع ہوا۔ اس کے نتیجے میں فوج کے سینئر کمانڈروں نے ملاقات کی اور ایک سادہ ایجنڈے کی منظوری دی:  فوجی قیادت سیاسی میدان سے باہر نکل کر ”نیوٹرل‘ ہوجائے، مارشل لا ہر گز نہ لگایا جائے، اور جنرل باجوہ کی سروس میں مزید توسیع نہ کی جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل باجوہ نے صدر عارف علوی کے ذریعے عمران خان کے سامنے ایک نیا فارمولہ رکھا:  پی ڈی ایم  29 نومبر سے پہلے انتخابات کا اعلان کرے اور جنرل باجوہ کو نگراں مدت کی صدارت کرنے اور معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے چھ ماہ کی توسیع دی جائے۔ عمران خان اس فارمولے کو آگے بڑھانے پر آمادہ ہوئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ اگلے انتخابات جیت کر چھ ماہ بعد اپنے آدمی کو آرمی چیف مقرر کر دیں گے۔ لیکن پی ڈی ایم جنرل باجوہ کو ایک اور مدت دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔


اس فارمولے کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔ جنرل باجوہ کا رویہ دھمکی آمیز ہوتا گیا۔ نواز شریف پیچھے نہ ہٹے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے آئی ایم ایف کی مشکل پالیسیوں کو لاگو کرنے میں اہم سیاسی سرمایہ خرچ کیا ہے، اور اگر مارچ میں انتخابات منعقد ہوئے تو اسے شکست ہو جائے گی۔ جنرل باجوہ نے اب پینترا بدلتے ہوئے اصرار کیا کہ جنرل اظہر عباس اور ساحر شمشاد، جو ان کے قریب تھے اور عمران خان کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے، کو بالترتیب چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جائنٹ چیفس آ ف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر فائز کیا جائے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں وہ وزارت دفاع کو سمری نہیں بھیجیں گے۔ نواز شریف نے ایک بار پھر مضبوط موقف اختیار کیا۔ جنرل باجوہ کو بتایا گیا کہ اگر وہ جنرل عاصم منیر کا نام نہیں بھیجتے تو وزیر اعظم صرف سینئر ترین جنرل یعنی عاصم منیر کی خدمات کو ''برقرار'' رکھیں گے اور انہیں آرمی چیف مقرر کر دیں گے۔ نومبر کے آخری ہفتے کشیدگی واضح تھی۔ آخر کار جنرل باجوہ پیچھے ہٹ گئے، جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنے اور جنرل شمشاد کو چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی پربنا دیا گیا۔


جنرل باجوہ کی آخری خواہش تھی کہ اب وہ منظر عام سے اوجھل ہوئیں۔ لہذا چوہدریوں سے درخواست کی کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ اس امید پر ضمانت دیں کہ تحریک انصاف کے ٹرولز انھیں اور ان کے خاندان کوپریشان نہیں کریں گے۔ اگرچہ جنرل باجوہ کے خلاف ٹرولنگ وقتی طور پر رک گئی ہے لیکن عمران خان معاف کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اور نہ ہی وہ آزاد میڈیا بھولنے کے لیے تیار ہے جو چار سال سے جنرل کا مشق ستم بنا رہا تھا۔ اس طرح ان کی بدعنوانیوں اور سیاسی جوڑ توڑ کی کہانیاں گردش میں ہیں۔


اور امر واقعی یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے گزشتہ چھے سال کے عدم استحکام اور آئین کی پامالی میں کردار کو فراموش یا معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔ خود غرض طالع آزماؤں کے لئے ایک نصیحت آموز سبق قائم ہونا چاہیے۔