“تیر ی آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب“

“تیر ی آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب“

کیا عمران خان انتہائی موقع پرست ہیں؟ کیا وہ یقین رکھتے ہیں یوٹرن، جھوٹ، پروپیگنڈااور من گھڑت بیانات سیاست میں ضروری اور موثر ہیں کیوں کہ حاصل شدہ مقصد طریق کار کو درست ثابت کردیتا ہے؟ کیا وہ پاکستان کے پائیڈ پائپر ہیں (ایک افسانوی کردار جس نے پائپ بجا کر ایک قصبے کے بچوں کوسحر زدہ کرکے گم کردیا تھا)؟


عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی حالات میں پارلیمنٹ میں واپس نہیں جائیں گے۔ لیکن اُنھوں نے تحریک انصاف کے گیارہ اراکین قومی اسمبلی، جنھوں نے ایک سو چالیس ممبران کے ہمراہ استعفیٰ دے دیا تھا، پر زور دیا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دیں تاکہ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو حکم دے کہ اُن کے (عمران خان کے) حکم پر دیے گئے استعفوں کو قبول نہ کرے۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس جواز پر اُن کا کیس مسترد کردیا کہ عدالت قومی اسمبلی کے اسپیکر کے فیصلے پر اختیار نہیں رکھتی۔ چیف جسٹس صاحب نے اُنھیں مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ ایسے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں توپارلیمنٹ میں واپس چلے جائیں۔ ایسا ہی مشورہ اُنھیں سپریم کورٹ کے چند ایک ججوں بشمول چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے بھی دیا گیا۔ نیب قانون میں کی گئی ترمیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کے دوران استفسار کیا گیا، ”جب یہ ترمیم پیش کی جارہی تھی تو آپ نے اسے پارلیمنٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟ آپ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیوں کررہے ہیں؟“


عمران خان نے توہین کی کارروائی میں الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا ہے۔ درحقیقت وہ چیف الیکشن کمشنر، اسکندر سلطان راجہ پر مسلسل تنقیدی حملے کررہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو پاکستان مسلم لیگ ن کا چمچہ قرار دیتے ہیں حالانکہ چیف الیکشن کمشنر کو عمران خان نے خود نامزد کیا تھا۔ اس وقت عمران خان نے اُنھیں بہت سراہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ چیف الیکشن کمشنر پر زور دے رہے تھے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی فنڈنگ کے ذرائع کی تحقیقات کا جلد از جلد نتیجہ نکالیں۔


عمران خان پی ڈی ایم حکومت اور اس کے رہنماؤں کے آئینی اور قانونی جواز کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں،چہ جائیکہ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ بیٹھ کر آئینی معاملات پر بات چیت کریں۔ لیکن اُنھوں نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ صدرعارف علوی کو گرین سگنل دیا ہے کہ وہ فوری انتخابات کے لیے حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کریں۔


عمران خان اور ان کے ٹرول دستے چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ کی کئی ماہ تک توہین کرتے اور اُنھیں برا بھلا کہتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ مزید توسیع نہ لیں۔ لیکن جب دونوں کی حال ہی میں خفیہ ملاقات ہوئی تو اُنھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جنرل باجوہ نومبر 2022  ء کے بعد بھی عہدے پر رہ سکتے ہیں اگر وہ 2023  ء کے آغاز میں انتخابات کا اعلان کردیں جن کے نتیجے میں وہ (عمران) جیت کرنئے آرمی چیف کا چناؤ کریں۔


اب خان نے اپنے وفادار حامیوں سے حلف لیا ہے کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے اور پی ڈی ایم حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ کئی مہینوں سے اس کی دھمکیاں تو دے رہے ہیں لیکن تاریخ دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ ان کے قریبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایسا کسی بھی دن ہوسکتا ہے کیوں کہ یہ تحریک انصاف کے لیے آریا پار کا مہینہ ہے۔ پیشگی اقدام کے طور پر خان نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ انھیں 12 اکتوبر کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں رحمت للعالمین کانفرنس منعقد کرنے کی اجازت دی جائے۔ خیال یہ ہے کہ اسے مجوزہ لانگ مارچ کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔


قابل فہم بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے ان کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے بجائے اس نے سڑکوں کو بلاک کرنے کے لیے کنٹینروں کے علاوہ آنسو گیس کے گولوں اور ربڑ کی گولیاں کا بندوبست کرلیا ہے۔ ہزاروں پولیس، رینجرز اور فوجی دستے اسلام آباد کی حفاظت کریں گے۔ پولیس ضرورت پڑنے پر خان کو گرفتار کرنے کے لیے تیار ی کرچکی ہے۔


واضح طور پر پی ڈی ایم حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے لیے کمر بستہ ہے اور اپنے قدم مضبوط کررہی ہے۔ اسحاق ڈار واپس آکر وزارت خزانہ کو کنٹرول کررہے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے عوام پر پڑنے والا معاشی بوجھ کم کیا جا سکے۔ مریم نواز بدعنوانی کے من گھڑت مقدمے سے بری ہوچکی ہیں۔ اُنھیں پاسپورٹ واپس مل گیا اور وہ لندن جاچکی ہیں۔


پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے سزا سے بچنے کے لیے نیب قوانین سے استفادہ کیا ہے۔ اب حکومت نے فارن فنڈنگ کیس میں نامزد عمران خان کے مالیاتی سہولت کاروں کو گرفتار کرنے کے لیے ایف آئی اے کو متحرک کیا ہے۔یہ لوگ عمران خان کی ایما پر خفیہ بنک اکاؤنٹ چلا رہے تھے۔ آڈیو ٹیپ سامنے آنے سے عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اور وہ واضح طور پر اس میں پھنستے جارہے ہیں۔


بحران کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کے اچھے افسران کے ذریعے پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل ہوجائے جس کے خان صاحب بے تابی سے خواہش مند ہیں اور لانگ مارچ ٹل جائے اور وہ پارلیمنٹ میں واپس چلے جائیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو دھماکہ خیز ٹکراؤ کا تمام تر ماحول تیار ہوچکا ہے۔


ان تمام واقعات کے درمیان چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ امریکی اعلیٰ افسران کے ساتھ واشنگٹن اور لینگلے(Langley) میں طویل المدت سکیورٹی امور پر باہمی ”بات چیت“ کررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا کل ہونہ ہو، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنے وطن میں سینئر ساتھیوں کے ساتھ الوداعی عشائیوں میں شریک دکھائی دیتے۔ ایسا اس حقیقت کے باوجود ہورہا ہے کہ اُنھوں نے کھل کر اعلا ن کردیا ہے کہ وہ اگلے ماہ ریٹائر ہونے جارہے ہیں۔ خواجہ آصف کا بیان بھی آچکا کہ شہباز شریف پانچ افسران کی فہرست میں سے اگلے آرمی چیف کا انتخاب کریں گے۔


ظاہر ہے کہ اب باتیں تو ہوں گی۔ اگر اسلام آباد میں ہونے والے تصادم میں خون بہا تو کیا ہوگا؟ اگر تحریک انصاف کے شروع کردہ خانہ جنگی کا سلسلہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا تو پھر؟ معیشت کی مایوس کن صورت حال اور سیلابوں کی پھیلائی ہوئی تباہی کو دیکھتے ہوئے کیا جنرل باجوہ ایک طرف کھڑے دیکھتے رہیں گے اور ملک انتشار اورافراتفری کی نذرہوجائے؟


یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عمران خان کو دینا ہے۔ پارلیمانی اور آئینی راستوں اور سیاسی مفاہمتی عمل کی راہیں مسدود کرنے کی ذمہ داری صرف اور صرف انہی پر عائد ہوتی ہے۔