گزشتہ ہفتے عمران خان نے دھمکی دی کہ ”اگر دیوار کے ساتھ لگایا گیا تو مزید خطرناک ہوجاؤں گا۔“فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف اپنی حالیہ تقریر میں وہ اپنے قول کے پکے دکھائی دیے۔ اُن کے اشتعال کی وجہ فوج کا ”نیوٹرل“ ہونا ہے، اور عمران خان کی لغت میں نیوٹرل کا مطلب جانور ہوتا ہے۔
چند دن پہلے عمران خان نے گرجتے ہوئے کہا تھا، ”آصف زرداری اور نواز شریف نومبر میں ایک نیا آرمی چیف نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ اپنی ”پسند“ کا آرمی چیف لائیں گے کیوں کہ اُنھوں نے دولت لوٹی ہوئی ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر میرٹ پر کوئی طاقتوراور محب وطن آرمی چیف آگیا تو وہ ان کا احتساب کرے گا۔ یہی ڈر اُنھیں مجبور کررہا ہے کہ وہ نومبر تک اقتدار سے چمٹے رہیں تاکہ اپنی پسند کا آرمی چیف مقرر کرلیں۔ “
عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں۔اُن کا خیال ہے کہ وہ انتخابی کامیابی حاصل کرکے نومبر میں اپنی مرضی کا آرمی چیف نامزد کریں گے اور پھر فورسز کو اپنے ساتھ ملا کر آصف زرداری اور نوا زشریف کا پاکستان سے خاتمہ کردیں گے۔ درحقیقت اُن کا ہمیشہ سے یہی ایجنڈا تھا۔ اسی چیز نے اُنھیں گزشتہ برس فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ تصادم کی راہ پر ڈال دیا تھا جب وہ اپنی پسند کا آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے عزائم کے حصول کے لیے اس ایجنسی کو استعمال کرسکیں۔
پاک فوج پر عمران خان کے تازہ ترین حملے نے سرخ لکیر کو اُڑا کررکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے وہ چیف آف جنرل سٹاف، قمر جاوید باجوہ کو ذاتی طور پر ہدف تنقید بنائے ہوئے تھے کیوں کہ اُنھوں نے ”نیوٹرل“ رہتے ہوئے اُنھیں گزشتہ اپریل میں حزب اختلاف کے پیش کردہ عدم اعتماد کے ووٹ سے نہیں بچایا تھا جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت چلی گئی تھی۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت جسے بھی آرمی چیف نامزد کرے گی، وہ ضرور نااہل اور غیر محب وطن ہوگا۔ اس طرح بیک جنبش قلم اُنھوں نے پاکستان کے تمام چوٹی کے جنرلوں، جو آرمی چیف بن سکتے ہیں، کو ممکنہ غیر محب وطن اور نااہل قرار دے دیا ہے۔ جب موجودہ جنرلوں میں سے کوئی آرمی چیف نامزد ہوگا تو وہ عمران خان کے غیض و غضب کا نشانہ بن جائے گا۔
بلاشبہ عمران خان کی دیوانگی میں بھی ایک حکمت عملی پنہا ں ہے۔اپنی سب سے بڑی پریشانی کا باعث، جنرل باجوہ کو اُنھوں نے تنبیہ کردی ہے کہ اگر وہ تحریک انصاف کے غصے سے بچنا چاہتے ہیں تو وہ ایک توسیع لینے سے باز رہیں۔ اسی زہر آلو سانس میں وہ اگلے آرمی چیف، چاہے وہ جو بھی ہو، کو دباؤ میں لے آئے ہیں کہ لازمی طور پر میرٹ پر اور محب وطن ثابت ہوں۔ یہ سند حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریفوں اور زرداریوں کے خاتمے کی جنگ میں عمران خان کا ساتھ دیں۔
آئی ایس پی آر کے ترجمان عمران خان کے توہین آمیز اور ناروا تبصرے پر سناٹے میں آگئے۔ اُنھوں نے ایک ”مایوس کن اور بدقسمت“ بیان کے ذریعے ”تنازع کھڑا کرتے ہوئے“ فوجی قیادت کو زک پہنچانے کی کوشش پر افسوس کااظہار کیا۔اس سے زیادہ نرم و گداز تنقیدی الفاظ کا استعمال نا ممکن ہے۔ مختلف وقت اور پس منظر میں اس کو شش کا ارتکاب کرنے والے سیاست دان کو آرمی ایکٹ 1952 کا سامنا کرنا پڑتا اوراس کا مجرمانہ الزامات کے تحت کورٹ مارشل ہوجاتا۔ اس کی باقی عمر شاید جیل میں ہی گزر جاتی۔
لیکن موجودہ کیس میں اسٹبلشمنٹ کے جنرلوں میں عدم اتفاق تھا کہ کیا اس اشتعال انگیز ی کا جواب دیا جائے، اور کس طرح دیا جائے۔ کچھ سخت بیان چاہتے تھے، جب کہ دیگر کا خیال تھا کہ ردعمل کی ذمہ داری حکومت پر رہنے دی جائے۔ آخر کار رات گئے آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک سسکی بھرا بیان جاری ہوا۔ اس پر عمران خان نے نمک پاشی کرتے ہوئے طنزیہ استفسار کیا، ”میں؟ میں نے کیا غلط کہا ہے؟“ وہ جانتے ہیں کہ اُنھوں نے بہت کامیابی سے اسٹبلشمنٹ کے اتحادمیں دراڑ ڈال دی ہے۔ اب وہ ان اداروں پر دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں جو ان کے سامنے سرنگوں ہونے کے لیے تیار نہیں، جیسا کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن۔ لیکن اُن کے دست راست، عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور دیگر نے خود کو اس بیان سے الگ کرلیا۔ اُن کی لاتعلقی کا یہ عالم تھا کہ کہا کہ اُنھوں نے نہ تو یہ بیان سنا ہے، نہ پڑھا ہے۔
اب عمران خان نے فوری عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے نواز شریف کے لیے طبل جنگ بجا دیا ہے: ”تمہارا انتظار کررہا ہوں۔“ خان نے گرجتے ہوئے کہا، ”آؤ، مجھ سے مقابلہ کرو۔“اس سے ظاہر ہوتا کہ کچھ اہم منصوبہ پس پردہ چل رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور عدالتیں ابھی تک عمران خان سے نرمی کیوں برت رہی ہیں جب کہ اُنھوں نے بہت سی سرخ لکیریں عبور کرلی ہیں؟ توشہ خانہ، فارن فنڈنگ اور دھشت گردی کے مقدمات پر اتنی سست پیش رفت کیوں ہورہی ہے؟عمران خان فوری عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے پی ڈی ایم کو نومبر سے پہلے گھر جانے پر زور کیوں دے رہے ہیں؟ اسحاق ڈار اور نواز شریف کے بارے میں کیوں اطلاعات آرہی ہیں کہ وہ پاکستان روانگی کے لیے تیار ہیں؟چار سال بعد مریم نوازنے اپنا پاسپورٹ واپس لینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کیوں کی ہے تا کہ وہ لندن جا سکیں؟ عمران خان ”مسٹر ایکس اور مسٹروائی“ کو خبردار کیوں کررہے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کو چلتا کرنے کی سازش سے باز رہیں؟
عمران خان کی پرزور تردید کے باوجود صدر عارف علوی نے تصدیق کی ہے کہ پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے خفیہ کوشش جاری ہیں تاکہ ملک کشمکش کے گرداب سے نکل کر سیاسی اور معاشی استحکام کی راہ پر قدم رکھ سکے۔ ظاہر ہے کہ ایسا صرف اسٹبلشمنٹ کی ایما پر ہی ہوسکتا ہے۔ تو کس قسم کا پنڈی پلان بن رہا ہے؟ وہ پلان جو مندرجہ بالا سوالوں کے نوک دار جوابات دیتا ہے۔
اگر پی ڈی ایم حکومت کو اکتوبر میں اسمبلی تحلیل کرنے اور جنوری 2023 ء میں عام انتخابات کے لیے قائل کیا جاتا ہے تو عمران خان اور شریف برادران کے اتفاق رائے سے قائم ہونے والی نگران حکومت باہم مشورہ سے نومبر میں اگلے آرمی چیف کو نامزد کرے گی۔ اس سے عمران خان کے دو مطالبات پورے ہوجائیں گے۔ اس کے بدلے میں نواز شریف کو واپس آکر پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کرنے کی اجازت دی جائے گی، ق لیگ اور تحریک انصاف کی راہیں تیزی سے الگ کرکے پنجاب حکومت پی ڈی ایم کے حوالے کردی جائے گی۔ عمران خان، نوا زشریف اور آصف زرداری کو پابندکیا جائے گا کہ مرکزی حکومت کے تحلیل ہوتے ہی وہ اپنی اپنی صوبائی حکومتیں تحلیل کردیں گے۔ حکومت تحلیل کرنے سے پہلے پی ڈی ایم عوام کو معاشی ریلیف پیکج فراہم کرنے کی حقدار ہوگی کیوں کہ آئی ایم ایف کامشکل پروگرام نافذ کرنے کی وجہ سے وہ بہت غیر مقبول ہوچکی ہے۔ اس طرح سب کے لیے ہموار میدان تیار ہوگا تاکہ اگلے برس شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے، بشرطیکہ کوئی غیر معمولی حالات تاخیر کا سبب نہ بن جائیں۔بلاشبہ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ مرکزی کھلاڑی ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ان کا ایک دوسرے پر اعتماد کرنا دشوار ہے۔ لیکن اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں وہ پھندا ہے جو ہر کسی کی گردن میں ہے۔ پی ڈی ایم کھیل کے لیے تیار ہے۔ اگر عمران خان معقولیت دکھانے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ان کی گرد ن کے گرد پھندا تنگ ہونے لگے گا۔ یہ سب کچھ انتیس نومبر سے پہلے طے ہونا ہے، وگرنہ پنڈن پلان متحرک ہوجائے گا اوراس میں سب سے زیادہ نقصان عمران خان کا ہوگا۔