سیاسی کھائی

سیاسی کھائی

نواز شریف کو عدالتوں نے قانون سے ”بھگوڑا“ قرار دے دیا لیکن مسلم لیگ ن خوف زدہ دکھائی نہیں دیتی۔ کراچی کے لیے گیارہ سو ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا گیا لیکن اہلیانِ کراچی خوشی سے گلیوں اور سڑکوں پر بھنگڑے نہیں ڈال رہے۔ پنجاب اور لاہور کو بالترتیب ایک ایک آئی جی پولیس اور سی سی پی او دیے گئے لیکن اس کے شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس کو تباہ کیا جارہا ہے۔ دفترِخارجہ کے دو افسران نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ دفترِ خارجہ میں تحریکِ انصاف کی پالیسی کے مطابق سیاسی بنیادیوں پر تقرریاں روکی جائیں لیکن حکومت کو پیشہ ورانہ کوتاہی سے پیدا ہونے والی خرابی کا احساس نہیں۔


نیب نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف بدعنوانی کا دوسرا کیس کھول تو دیا ہے لیکن اس سے وزیر اعلیٰ کی پرسکون نیند میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔عدلیہ نے وزیر اعظم کے خصوصی معاونین کے اختیارات کم کردیے تھے لیکن وہ ابھی بھی وزارتیں اور محکمے چلا رہے ہیں۔ ”شہنشاہ برہنہ ہے“ لیکن وہ بے شرمی سے اکڑ کرچل رہا ہے۔


اس دوران افغانستان میں اپنی موجودگی رکھنے والی تحریک طالبان پاکستان مغربی سرحد پر متحرک ہورہی ہے۔ اس نے فاٹا میں سکیورٹی فورسز پر حملے کیے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی فوج مشرقی سرحد پر اپنی پوزیشن مضبوط کررہی ہے۔ خدشہ ہے کہ وہ ہمالیہ کی ترائی میں چینی فوج کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد عوام کی توجہ بٹانے کے لیے ’اسٹریٹیجک سٹرائیک“ کی کوئی اور کارروائی کرسکتی ہے۔ چنانچہ جائے حیرت نہیں کہ سیاسی بقراطوں کے ”ایک صفحے پر“ یا ”سب ٹھیک ہے“ کے نعروں کاتسلسل اور آہنگ کافی مدہم پڑچکا ہے۔


نواز شریف کا فی الحال پاکستان آنے کا کوئی ارادہ نہیں تاوقتیکہ حکومت کو چلتا کرنے کے لیے لوہا گرم ہو۔ اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت بھی نوازشریف کو جلاوطن ہی رکھنا چاہے گی کہ کہیں باپ اور بیٹی مل گئے توعدالت میں سماعت کے وقت جوشیلے حامیوں سے نمٹنے کا مسلہئ گھمبیر ہوتا جائے گا۔


اس وقت ہم اگلے مارچ میں سینٹ کے انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حکومت، حزب اختلاف اور سلیکٹرز کے لیے حالات کی نزاکت بڑھ رہی ہے۔ اس سے پہلے کچھ نہ کچھ کیا جانا ہے۔ اگر حز ب مخالف سینٹ میں اکثریت کھودیتی ہے، اور عمران خان کی حکومت کے اس وقت تک برقرار رہنے کی صورت ایسا ہوجائے گا، تو پھر آئین میں تبدیلی لاتے ہوئے تحریک انصاف کو اسٹبلشمنٹ کی واحد سیاسی پارٹی کے طور پر تقویت دینے یا شاید کسی قسم کے نیم صدارتی نظام کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ یہ بندوبست پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوگاکیونکہ اس کے بعد ان کے ہاتھ سے سیاسی لین دین کی طاقت جاتی رہے گی۔


کراچی کا گیارہ سو ارب روپے کا ترقیاتی پیکج بھی محض اُسی طرح ایک پراپیگنڈا ہے جس طرح چند ماہ پہلے کوویڈ 19 ر یلیف پیکج دینے کا چرچا کیا گیا تھا۔ اُس کا حجم بھی گیارہ سوارب روپے تھے۔ وعدہ وفا کرنے کے لیے نہ خزانے میں اُس وقت رقم تھی نہ آج ہے۔ اُس وقت بھی آج کی طرح وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان تعاون کی بجائے محاذآرائی اور بیان بازی کا سلسلہ جاری تھا۔


پنجاب پولیس کے بحران کی باز گشت صوبے کی سول سروس میں سنائی دیتی ہے۔ دونوں سروسز تقرریوں اور تبادلوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ جس دوران نیب کے خوف کی وجہ سے سینئر سول سروس نے کام کرنا چھوڑ رکھا ہے،  نچلی سطح کے افسران بدعنوانی میں دھنسے ہوئے ہیں۔ پولیس سروس میں بھی یہی کچھ ہونے جارہا ہے۔ اسلام آباد سے ملنے والا پیغام یہ ہے کہ پولیس کو پیشہ ور غیر جانبداری کا اصول چھوڑنا اور مارچ سے پہلے حز ب مخالف کی ہر کوشش کو ناکام بنانا ہوگا۔ چنانچہ وہ افسران جو تحریک انصاف کے حکم کی تعمیل کے لیے تیار نہیں، اُنہیں سیٹ چھوڑنی پڑے گی۔


نیب کمزور اور حیران دکھائی دے رہا ہے۔ عدالتیں اس کے ناقابل قبول اختیارات سلب کرتی جارہی ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ سیاسی وجوہ کی بنا پر حزب اختلاف کا گرم تعاقب جاری رکھا جائے، چاہے کیس میں جان ہو یا نہ ہو۔ دوسری طرف اسٹبلشمنٹ نیب کے ذریعے کاروباری برادری اور بیوروکریسی کو لگام ڈالنا چاہتی ہے۔ ان حالات میں بطور ایک اینٹی کرپشن ادارہ، نیب اپنی ساکھ تیزی سے کھو رہا ہے۔


لیکن ایک پالیسی ایسی ہے جو ڈگمگاتی ہوئی جمہوریت میں استحکام اور اتفاق رائے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ پالیسی روایتی اور الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ سوشل میڈیا کی عالمی بالا دستی کے دور میں معلومات کو روکنا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ضمن میں بنائی گئی بہت سی پالیسیوں کے الٹے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ روایتی طور پر مقدس گائے کا درجہ رکھنے والے بعض ریاستی ادارے سوشل میڈیا کی زد میں آگئے ہیں۔ ایک ”غائب شدہ“ صحافی کی خاطر سے بہت سے علم اُٹھائے میدان میں آگئے۔ بحران کے وقت یہ اثاثہ ایک بھاری بوجھ بنتا جارہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے 1999 ء سے لے کر 2007 ء تک میڈیا کے ساتھ بہت لگاؤ رکھا یہاں تک کہ وہ عدلیہ کے ساتھ تصادم کی راہ اختیارکرتے اور قاصد کے پر کترنے کی کوشش کرتے دکھائی دیے۔ اس کے بعد میڈیا نے اُنہیں کبھی معاف نہیں کیا۔ ایک پارٹی پر مبنی پاکستان ایک کھائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وسط مارچ کے سیاہ ہوتے افق طوفان کی آمد کا پتہ دیتے ہیں۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.