!گیم آن ہے

!گیم آن ہے

اگلے ماہ سینٹ انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اس موقع پر عمران خان نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو میثاقِ جمہوریت جا وعدہ یاد دلایا ہے۔ کئی سال پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے شفاف انتخابات کی حمایت کا عزم کیا تھا۔ اب عمران خان چاہتے ہیں کہ سینٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کا خاتمہ کردیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے سابق چیئرمین سینٹ، رضا ربانی نے اس پر فوری ردِعمل دیتے ہوئے عمران خان کو یاد دلایا کہ جب 2016  ء میں انتخابی اصلاحات کی قرار داد سینٹ میں پیش کی گئی تو اُنہوں نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کیا تھا۔ درحقیقت جب پاکستان مسلم لیگ ن نے مطالبہ کیا تھا کہ چیئرمین سینٹ کا 2018 ء کا الیکشن کھلی رائے شماری سے ہو تو کسی نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی واضح اکثریت کے باوجود اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ، صادق سنجرانی بھاری اکثریت لیتے ہوئے آسانی سے جیت گئے تھے۔ کم وبیش یہی کچھ 2019 ء میں بھی ہوا جب دوتہائی اکثریت رکھنے والوں نے اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو رائے شماری والے دن ووٹ ہوا میں تحلیل ہوگئے تھے۔


عمران خان نے حزب اختلاف کو مشورہ دیا ہے کہ کھلی رائے شماری اُن کے اپنے مفاد میں بھی ہے کیوں کہ ”حکومت ووٹ خریدنے کے لیے زیادہ رقم اور اختیار رکھتی ہے۔“اپنے بیان کا عملی اظہار کرتے ہوئے اُنہوں نے تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ کو فی کس پچاس کروڑ روپے بطور ”ترقیاتی فنڈز“ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ ”ادھر اُدھر“ نہ ہوجائیں۔اُن کی تشویش کی بنیاد 2018 ء کے سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے خیبرپختونخواہ اسمبلی سے تعلق رکھنے والے اراکین کی خریدوفروخت ہے۔ ان میں سے بیس کو پارٹی سے نکال دیا گیا، لیکن اکثر کی بعد میں باعزت طور پر واپسی ہوگئی تھی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف یہ ویڈیو ثبوت اس وقت سامنے آیا ہے جب یہ کیس سپریم کورٹ اور عوام کے ذہنوں میں دہکتی ہوئی آگ کی طرح ہے۔ یہ ویڈیو چیئرمین نیب اور ایک جج کی پراسرار طریقے سے سامنے لائی جانے والی ویڈیوز کی یاد لاتی ہے کہ کس طرح اُنہیں ”سلیکٹرز“ اور ”سلیکٹڈ“ کی مرضی پر چلنے پر مجبور کیا گیا۔


عمران خان کی غلطی واضح ہے۔ اُنہوں نے پارلیمان میں ایک آئینی ترمیم پیش کرنے کی کوشش کی لیکن سینٹ میں یہ ترمیم روک لی گئی۔ اس کے بعد اُنہوں نے من پسند فیصلہ لینے کے سپریم کورٹ میں درخواست دی۔ جب جج حضرات نے پریشان کن سوالات پوچھنا شروع کردیے تو وہ پیش بندی کے طور پر صدارتی آرڈیننس لے آئے۔ یہ سب ہنگامہ کیا ہے؟


2018 ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تحریک انصاف پریشان رہی کیوں کہ سینٹ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا غلبہ تھا۔ اس وجہ سے تحریک انصاف اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کرنے اور اپنے راستے سے ہر قسم کی مزاحمت کا خاتمہ کرنے کے لیے قانون سازی نہیں کرسکتی۔ اب تحریک انصاف کو چھوٹی جماعتوں کی مدد سے سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی مرضی کے قوانین اور آئینی ترامیم لاسکی گی۔یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں اس کار استہ روکنے پر تلی ہوئی ہیں۔ درحقیقت سینٹ اُن کے لیے اہم ترین معرکہ بن چکا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرنے کے لیے پی ڈی ایم قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا آپشن استعمال کرنا چاہتی ہے تو اس کی سینٹ کے انتخابات میں کامیابی تحریک انصاف کے ناراض اراکین قومی اسمبلی کوزیادہ اعتماد دے گی۔ وہ اپنی ناراضی کا بھرپور اظہار کرسکیں گے۔ اسی طرح اگر پی ڈی ایم قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی دھمکی پر عمل کرتی ہے تو بھی اس نے یہ یقینی بنانا ہے کہ سینٹ میں اس کی بھرپور نمائندگی موجود رہے تا کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی کو کمزور پاکر اپنے ایجنڈے پر عمل نہ کرسکے۔


اس دوران بات اب سپریم کورٹ تک پہنچ چکی ہے۔ ایک کیس میں جج حضرات کھلی رائے شماری کی آئینی حیثیت کی سماعت کررہے ہیں۔ ایک اور کیس عدالت تحریک انصاف کو اپنے اراکین پارلیمنٹ کو کروڑں کے فنڈز دینے سے روک رہی ہے جن کا مقصد سینٹ کے انتخابات میں اُن کی وفاداری یقینی بنانا ہوسکتا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے لیے مشکلات کا باعث کچھ اور بھی ہے۔


آخر کار سپریم کورٹ نے تمام صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو رواں سال مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔ اگر یہ انتخابات منصفانہ اور آزاد ماحول میں ہوتے ہیں تو تحریک انصاف کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے حزب اختلاف کی جماعتیں چاروں صوبوں میں یہ انتخابات جیت جائیں گی۔ نچلی سطح پر ملنے والی سیاسی حمایت اسلام آباد اور صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومتوں کے خلاف پی ڈیم ایم کے بازو مزید توانا کردے گی۔ اگلے عام انتخابات میں بھی ان کی حمایت واضح فرق ڈال سکتی ہے۔ ”ترقیاتی فنڈز“ کے نام پر کروڑوں کی رشوت دیے بغیر تحریک انصاف کے حامیوں اور ”امیدواروں“ کی وفاداری قابومیں رکھنا بہت مشکل ہے۔


ان پریشان کن آوازوں کے درمیان ڈی جی آئی ایس پی آر کا پاکیزہ بیان سماعتوں میں رس گھول گیا۔ فرمایا فوج غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہے، اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ لیکن مولانا فضل الرحمن نے شیش محل میں تاریخی حوالہ جات کا پتھر پھینک دیا۔اب بھلا نواز شریف کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ اُنہوں نے ”سلیکٹرز“ اور ”سلیکٹڈ“ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اُنہیں ملک کی تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیا۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کے سہارے سے قائم تحریک انصاف کی حکومت میں ملک کا گراف بدعنوانی میں بہت بلند اور جمہوریت میں بہت پست ہے۔آئی ایس پی آر کو ان پر بجا طور پر تشویش ہونی چاہیے۔


کچھ سیاسی پنڈتوں کو یقین ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کا ہدف پی ڈی ایم سے زیادہ تحریک انصاف ہے۔ کیا اسٹبلشمنٹ عمران خان سے کنارہ کشی اختیار کررہی ہے؟غالباً ابھی نہیں۔ لیکن کم از کم یہ ضرور ہے کہ عمران خان کی قیادت میں قائم اس ہائبرڈ نظام کی فاش ناکامی کی وجہ سے اس کی صفوں میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ اس ناکامی نے ”سلیکٹرز“ کو بدنام کردیا ہے۔ عدم استحکام اور افراتفری میں مزید اضافہ ہوا اور اگر اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے حمایت نہ ملی تو حکومت کے برے دن آسکتے ہیں۔ا س صورت میں ”سلیکٹرز“ اس کی حمایت سے دست بردار ہوسکتے ہیں۔


ان حالات میں کمزور، بکھری ہوئی یا ابہام کا شکار دکھائی دینے کی بجائے پی ڈی ایم ایسی وکٹ پر بالنگ کرانے کے لیے کمر کس رہی ہے جو تیزی سے خراب ہوتی جارہی ہے۔سینٹ کے انتخابات میں خم ٹھونک کر میدان میں اترنے کے فیصلے نے سلیکٹڈ وزیر اعظم، عمران خان اور پنڈی کے سدا بہار قلاباز، شیخ رشید کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ عمران خان پی ڈی ایم سے کہہ رہے ہیں کہ وہ سینٹ میں کھلی رائے شماری قبول کرلیں جبکہ شیخ رشید قومی اسمبلی سے استعفے نہ دینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اب کیا پتہ پی ڈی ایم پہلے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے کو مان لیں۔ گویا گیم آن ہے!