اسٹبلشمنٹ کی واضح اکثریت، جس میں زیادہ تھری سٹار جنرل شامل ہیں، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چار اہم فیصلوں پر اتفاق کرچکے ہیں: (1) چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے، اور اگر حکومت نے ایسی پیش کش کی بھی تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ انتیس نومبر کو شیڈول کے مطابق اپنے منصب سے سبکدوش ہوکر گھر چلے جائیں گے۔ (2) اس وقت پاک فوج کے تین سینئر ترین جنرلوں۔۔۔ جنرل عاصم منیر (سابق ڈی جی آئی ایس آئی)، جنرل ساحر شمشاد (کور کمانڈر پنڈی) اور جنرل اظہر عباس (چیف آف جنرل سٹاف) میں سے دو کو وفاقی حکومت اس ماہ کے آخر تک چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف کے طور پر شارٹ لسٹ کرے گی۔ (3)اسٹبلشمنٹ کی اعلیٰ قیادت سیاسی دھڑے بندیوں سے الگ، غیر سیاسی یا غیر جانب دار رہے گی۔ کسی قابل قبول ٹائم فریم اور یکساں مواقع کے ساتھ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کی قیادت کو سہولت تو فراہم کرسکتی لیکن دباؤ ہر گز نہیں ڈالے گی۔ (4)تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے درمیان جاری کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی جمود میں اسٹبلشمنٹ مداخلت کرتے ہوئے مارشل لا نہیں لگائے گی۔
لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جنرل باجوہ اور عمران خان جنرل شمشاد اور جنرل عباس کو دونوں چوٹی کے عہدوں پر دیکھنا چاہتے ہیں، جب کہ میاں نواز شریف جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف بنانے کے خواہش مند ہیں۔ تواب کیا ہوگا؟
عمران خان حالات بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر نواز شریف نے نئے آرمی چیف کا انتخاب کیا تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں وہ چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کی بجائے جنرل باجوہ ہی دونوں عہدوں کے لیے چناؤ کریں۔ عمران خان کی جنرل عاصم منیر سے مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اُنھوں نے جنرل عاصم منیر کو 2019 ء میں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے صرف نو ماہ کی مدت کے بعد اس لیے ہٹا دیا تھا کیوں کہ پنجاب سے خان کی اہلیہ کے قریبی ٹولے کی بدعنوانی، جسے عمران خان کے چنے ہوئے وزیرا علیٰ، عثمان بزدار کی عملی معاونت حاصل تھی، کے دستاویزی ثبوت جنرل عاصم نے اُن کے سامنے رکھے تھے۔ عمران خان نے پہلے ہی میجر جنرل فیصل نصیر کے خلاف بلااشتعال او ر بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کا زہریلا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ وہ اس وقت آئی ایس آئی میں ڈی سی کاؤنٹر ٹیرر ازم ہیں اور جنرل عاصم منیر کے قریب سمجھتے جاتے ہیں۔ ملٹری انٹیلی جنس میں بھی جنرل عاصم منیر کے ماتحت کام کرچکے ہیں۔
خان کے لانگ مارچ کا ہدف پی ڈی ایم حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ جنرل عاصم منیر کو اگلا چیف آف آرمی سٹاف نامزد نہ کردے، نیز مارچ 2023 ء میں عام انتخابات کرائے جائیں۔ ان اہداف کے حصول میں کامیابی یقینی بنانے کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ اس ماہ پی ڈی ایم حکومت کو گرادیا جائے تاکہ نگران حکومت آکر تین ماہ (فروری تا مارچ) میں انتخابات کرائے، اور جنرل باجوہ کو اس وقت تک توسیع دے دے جب تک کوئی منتخب وزیر اعظم حکومت بناکر نئے آرمی چیف کو نامزد نہ کردے۔ عمران خان نے کئی مواقع پر کہا ہے کہ وہ ایسی شرائط پر جنرل باجوہ کو چھے ماہ کی توسیع دینا قبول کر لیں گے۔ چوں کہ عمران خان کو اگلے انتخابات میں جیت کا یقین ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اگلے آرمی چیف کو وہی نامزد کریں۔
اگر لانگ مارچ کے نتیجے میں خون ریزی ہو اور سیاسی جمود معیشت کا دھڑن تختہ کردے تو جنرل باجوہ کو مداخلت کا موقع مل جائے گا۔ اس صورت میں پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ جنرل باجوہ شہباز شریف کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اگر شہباز شریف ایسا نہ کریں تو پی ڈی ایم میں شامل کچھ شراکت داروں سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں۔ اس پر صدرعارف علوی شہبازشریف کوایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کا کہہ دیں گے۔ اگر ایسا بھی نہیں ہوتا تو وہ ملک میں سپریم کورٹ کی تائید سے مارشل لا لگا سکتے ہیں (اس وقت سپریم کورٹ شریف مخالف ججوں سے بھری ہوئی ہے)۔ اس صورت میں انتخابات اگلے سال لیے ملتوی کیے جاسکتے ہیں۔
عمران خان نے لانگ مارچ کو لانگ واک میں تبدیل کردیا ہے تاکہ اسٹبلشمنٹ میں موجود پی ڈی ایم مخالف لابی کو حکومت پرپہلے دو مطالبات منوانے کے لیے دباؤ ڈالنے کا وقت اور موقع مل جائے۔ یا انکار کی صورت میں اس ماہ کے آخر میں اسے گرانے کا سامان کیا جاسکے۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ لانگ مارچ راول پنڈی، اسلام آباد بیس نومبر کو پہنچے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا جب وزیرا عظم کے سامنے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف کی نامزدگی کے لیے تین نام رکھے جائیں گے۔
اس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے دو مبینہ حقائق پر غور کرنا اہم ہے۔ پہلے کے کا تعلق لندن سے ہے، اور اسے ”لندن پلان“ کانام دیا جاسکتا ہے۔ نواز شریف کے ساتھ ان معاملات پر بات چیت کرنے کے لیے شہباز شریف اور خواجہ آصف دو دن پہلے لندن پہنچے ہیں۔ چوں کہ ہم جانتے ہیں کہ 2019 ء میں ان دونوں افراد نے جنرل باجوہ کو تین سالہ توسیع کی حمایت پر نوازشریف کو قائل کیا تھا حالاں کہ یہ نواز شریف کی یہ مرضی کے برعکس تھا۔ ہم بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ موجودہ حالات میں نواز شریف کا مشورہ کیا ہوسکتا ہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی، ملک احمد خان، جو شریفوں اور جنرل باجوہ کے قریب ہیں، بھی لندن میں ہونے والی اس ملاقات میں موجود تھے۔ ملک احمد کو جنرل اور شریفوں کے درمیان رابطہ کار خیال کیا جاتا ہے۔
دوسرے کا تعلق لاہور ہے۔ اسے ”پنڈی پلان“ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جس دوران یہ سطور لکھی جارہی ہیں، رپورٹ ہے کہ جنرل باجوہ، صدر عارف علوی اور عمران خان، تینوں لاہور میں موجود ہیں۔ چوں کہ صدر علوی تسلیم کرچکے ہیں کہ اُنھوں نے جنرل باجوہ اور عمران خان کے درمیان رابطہ بحال کرانے کے لیے کردارادا کیا ہے۔ اُنھوں نے ان دونوں کے درمیان کم از کم دو خفیہ ملاقاتوں کی سہولت کاری کی ہے۔ تو کیا پھر تیسری اور ”حتمی“ ملاقات نہیں ہوسکتی؟
ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگلے دو ہفتے بہت اہم ہیں۔ کھیل ختم ہونے تک کھیل جاری ہے۔