مسلہ پیغام ہے یا ذرائع ؟

مسلہ پیغام ہے یا ذرائع ؟

افغانستان پر بیس سال تک قبضہ جمائے رکھنے والی مغربی طاقتوں کو فوجی اور سفارتی ذرائع سے افغانستان سے نکال باہر کرنے والے طالبان کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے قریب ہیں۔ ڈگمگاتی ہوئی غنی حکومت ان کے رحم وکرم پر ہے ۔ اس متوقع شکست نے الزام تراشی کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ ایک طرف ہم نے اس جنگ میں اتحادی بن کر ان سے بڑے پیمانے پر امداد وصول کی، اور اب بھی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم نے دہرا کھیل کھیلتے ہوئے ہوئے بیس سال تک طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے، اُن کے دست و بازو مضبوط کیے، اور اب اُنہیں شراکت اقتدار کے لیے کابل کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبورکرنے کے لیے تیار نہیں۔


پاکستان کی دلیل یہ ہے کہ 2001ء میں مغرب بلاسوچے سمجھے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ اس نے پاکستان کو ناحق طالبان کے مسلے میں الجھا دیا۔ ہمیں اس کی انسانی اور مالی طور پر بھاری قیمت چکانی پڑی۔ ابھی مسلہئ حل نہیں ہوا تھا کہ صدر ٹرمپ نے انخلا کا یک طرفہ طور پر اعلان کردیا۔ اس کے بعد صدر جوبائیڈن یک طرفہ طور پر ستمبر کی تاریخ کو مزید پیچھے لے آئے۔ اس نے تمام علاقائی طاقتوں، خاص طور پر پاکستان کو اس اثرورسوخ سے محروم کردیا جس سے وہ طالبان کوشراکت اقتدار کے لیے مذاکرات کرنے پر مجبور کرسکتے تھے۔


سچ پوچھیں تو دونوں موقف اپنی اپنی جگہ پر وزن رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے الزام تراشی کی سنگینی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن جو بھی ہو، یہ پاکستان ہے جسے طالبان کی فتح کا ردعمل برداشت کرنا ہے۔ امریکا دور بیٹھ کر اپنے زخم چاٹتے ہوئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کرے گا۔ درحقیقت افغانستان میں افراتفری اور شورش پاکستان کے لیے آزادی کے وقت سے ہی ایک خطرہ بنی ہوئی ہے۔


اس وقت پاکستان مشکل میں ہے۔ اس کی معیشت بیمار اور بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے۔ اس کی سیاسی سکت کمزور اور بے جان ہے۔ اس کے ہمسایوں کو اس پر اعتماد نہیں۔ وہ اس سے گریزاں ہیں۔عالم یہ ہے کہ اب اس کے مغربی خیر خواہ، خاص طور پر امریکا بھی اس کے خلاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سنانے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن کوئی بھی ہماری بات نہیں سن رہا۔ ہمیں افغانستان میں دوسروں کی ناکامیوں پر قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔


ہماری دلیل یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ اپنی کہانی کیسے سنائیں۔ گویا ہماری کہانی تو درست ہے، سنانے کا طریقہ ٹھیک نہیں۔ ہماری ریاست ایک پیچیدہ مسلے کو عطائی طریقوں سے حل کرنے کی کوشش میں ہے، جیسا کہ ایک محترم تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ”مایوس کن بات یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کو علم نہیں کہ اپنے کاموں کو کہانی کا روپ کیسے دینا ہے؟ صحیح سامعین تک، صحیح زبان میں درست پلیٹ فورم سے موثر پیغام کیسے پہنچانا ہے؟ اس کے لیے موثر ذریعہ کیسے استعمال کرنا ہے؟جو اسے سننا چاہتے ہیں، اُنہیں یہ کہانی کیسے سنانی ہے؟“دوسرے الفاظ میں، وہ کہنا چاہتے کہ یہ پیغام نہیں بلکہ ذریعے،یعنی میڈیا کا قصور ہے کہ دنیا ہماری بات نہیں سن رہی۔


لیکن سچائی اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور گنجلک ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ہماری ریاست اپنے بیانیے کو کتنے متاثر کن اور پرکشش طریقے سے درست سامعین تک پہنچاتی ہے، لیکن اصل مسلہ مغربی دارالحکومتوں میں تیس برسوں پر محیط بداعتمادی کا ہے۔ ہماری ساکھ مجروع ہوچکی ہے ۔ یہ ہے وہ مسلہ جس سے ہمیں نمٹنا ہے اور جس کے بعد ہی کوئی ہماری بات سنے گا۔ ایک مرتبہ پاکستانی ریاسست کے عظیم تزویراتی ماہر، جنرل حمید گل نے بہت فخر سے کھلے عام کہا تھا، ”ہماری آئی ایس آئی نے افغانستان میں روسیوں کو امریکیوں کی مدد سے شکست دی تھی، اور اب ہم امریکیوں کو امریکیوں کی مدد سے شکست دینے جارہے ہیں۔“


جنرل اشفاق کیانی کے قریبی دوستوں میں سے ایک، ایڈمرل مائیک مولن، چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف، نے بالآخر ناراض ہوکر ”حقانی گروپ کو آئی ایس آئی کا فعال بازو“ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں پاکستان پر ”امریکا سے اربوں ڈالر کی امداد لینے کے باوجود جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے“ کا الزام لگایا۔ اور ب صدر بائیڈن نے پاکستانی وزیر اعظم کو خیر سگالی کے جذبے سے فون کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ بداعتمادی کے اس سلسلے کو دیکھتے ہوئے کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ کیوں ہمارا بیانیہ ”درست سامعین“ کو متاثر کرنے میں ناکام ہے۔


بدترین بات یہ کہ اسی بداعتمادی اور بھروسے کے فقدان کی وجہ سے ہماری ریاست کو اندرون ملک ان کہانیوں کو قابل یقین بنانے میں بھی شدید مشکل کا سامنا ہے۔ اس طرح جب ریاست کے نمائندے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک قوم کی طرح مل کر مثبت کردارادا کرنے کی تلقین کرتے ہیں تو یقین کیا جاتا ہے کہ پاکستان ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ مکمل طور پر غیر جانب دار نہیں۔ اس نے ایسا غیر نمائندہ سیاسی نظام مسلط کیا ہے جس نے انتخابی جمہوریت کا گلا گھونٹ کر حکمرانوں اور عوام کے درمیان اُس عمرانی معاہدے کو چاک کردیا ہے جس کی آئین نے ضمانت دی تھی۔ اس کی مداخلت اور جوڑ توڑ نے مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔


یہی وجہ تھی کہ مرکزی دھارے کی ایک سیاسی جماعت کے معزول شدہ راہنما نے جب اسٹبلشمنٹ کی مرکزی قیادت پر غیرمعمولی تنقیدی حملہ کیا تو عوام کی ایک بڑے تعداد نے اس کاخیر مقدم کیا۔یہ اُن کے ووٹوں کے تقدس کو پامال کرنے کا ردعمل ہے۔ تاثر ہے کہ ریاست کے عناصر کوجوڑے رکھنے والا اعتماد بتدریج تحلیل ہورہا ہے۔ اس الجھن اور تناؤ کی وجہ سے ”ایک قوم کی طرح مل کر“ کام کرنے کے تصور کو کوئی پذیرائی نہیں ملتی۔


جب سے اسٹبلشمنٹ نے ایک ہائبرڈ سیاسی نظام مسلط کیا ہے، ہم نے تواتر سے دلیل دی ہے کہ اب ایک دھڑا پورے ملک اور اس کی پالیسیوں کو نہیں سنبھال سکتا۔ اسٹبلشمنٹ ملک پر اجارہ برقرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ دور اب جاچکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں مغربی طاقتوں کی شکست ہمارے روایتی داخلی عناصر کو متاثر کرے گی، بالکل جس طرح بیرونی طاقتوں کی آشیرباد نے پاکستانی ریاست کو گزشتہ سات عشروں سے داخلی عناصر کو کنٹرول کرنے کے قابل بنایا ہوا تھا۔جب 1989ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی افغانستان سے چلے گئے تو پاکستان کی چار عشروں سے جاری امداد کا سلسلہ بند ہوگیا۔ وہ امداد اسے اشتراکیت کے خلاف صف اول کی ریاست کا کردارادا کرنے پر ملتی تھی۔ 1990ء کی دہائی میں امریکا نے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کردیں۔ لیکن گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد امریکا پھر خطے میں آ دھمکا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی ریاست کی طرف ڈالروں کا بہاؤ شروع ہوگیا۔ اب امریکا پھر یہاں سے نکل رہا ہے۔ اس کا انخلا نہ صرف یک طرفہ ہے بلکہ یہ پاکستانی ریاست پر ”ڈبل کراس“ کرنے کا الزام بھی لگاتا رہا ہے۔ بدترین بات یہ ہے کہ اب یہ اسٹبلشمنٹ کی چالبازیوں کی وجہ پاکستان کو سزا دینے کے طریقے بھی سوچ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم مزیدمشکل دور میں داخل ہونے والے ہیں۔ علاقائی اور عالمی تنہائی ہماری ڈگمگاتی معیشت کا کباڑا کرتے ہوئے ہمارے لیے علاقائی دھشت گردی، مذہبی جنونیت اور قوم پرستوں کی علیحدگی کی تحریکوں کو دبانا مشکل بنا دے گی۔ قہر یہ ہے کہ گزرے برسوں میں ہماری ریاست نے انہی عناصر کو پالا تھا ۔


اگر کبھی اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے، قومی مفاہمت اور مجموعی طور پر ایک قوم کی طرح مل کر چلنے کا وقت تھا تو وہ اب ہے۔ مسلہ پرانے ذرائع کا نہیں، ہمارے پیغام کا ہے۔ اب ہمیں دنیا کے علاوہ پاکستان کے لیے بھی ایک نئے پیغام کی ضرورت ہے۔