مایوس کن صورت حال

مایوس کن صورت حال

پنجاب کی بیس نشستوں پر سترہ جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان سے پاکستان مسلم لیگ ن کے فیصلے کی جانچ ہوگی کہ کیا ملک کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لیے پتوار ہاتھ میں لینے کا فیصلہ درست تھا؟ نیز ن لیگ کے ملک کے لیے ضروری لیکن مشکل اور غیر مقبول فیصلوں کو اپنے سیاسی فائدے میں ڈھالنے اور اسے اقتدار سے نکال باہر کرنے پر تلی ہوئی تحریک انصاف کس حد تک کامیاب ہوتی ہے؟ اگر پاکستان مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیت گئی تونہ صرف اس کی پنجاب حکومت مستحکم ہوگی بلکہ اسلام آباد میں بھی اس کے قدم مضبوطی سے جمے رہیں گے۔ اگر معرکہ تحریک انصاف کے ہاتھ رہاتو اپنی مقبولیت ثابت کرنے اور اسٹبلشمنٹ کی صفوں میں رخنہ ڈالنے کی اس کی مہم مزید زور پکڑے گی۔ اس کا تازہ انتخابات کا مطالبہ مزید شدت،تشدد اور جارحانہ پن اختیار کرلے گا۔


مختصر یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی جیت سیاسی استحکام اور معاشی یقینی پن کی راہ ہموار کرے گی، جب کہ تحریک انصاف کی جیت ملک اور اس کے سیاسی نظام کو اس کے برعکس گڑھے میں دھکیل دے گی۔ کم از کم مستقبل قریب میں یہی کچھ ہوگا۔ تاہم سیاسی پنڈٹ کسی بھی جماعت کی بھرپور کامیابی کی پیش گوئی کرنے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ مشکل معاشی فیصلوں نے رائے دہندگان کو تکلیف میں ڈالا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی مقبولیت قدرے کم ہوئی ہے۔ نیز اس کے روایتی حامی پسند نہیں کرتے کہ انہی امیدواروں کو دوبارہ میدان میں اتار جاتا جو اس سے پہلے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔


دوسری طرف تحریک انصاف نے اس مہم کو زندگی اور موت کا مسلہ بنا رکھا ہے۔ عمران خان نے’چوروں کی امپورٹڈ حکومت“ کے اپنے بیانیے کو طوفانی بگولے کی شکل دے دی ہے جو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیتا جارہا ہے۔ دوسری طرف وہ اور ان کے حامی چکنے گھڑے ثابت ہورہے ہیں۔ ان کے لیڈر کے بارے میں ہولناک حقائق سامنے آجائیں، ان کی سابق حکومت کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کی بات ہو، ان پر کسی قسم کا اثر نہیں ہوتا۔ عمران خان نہایت کھلے الفاظ، کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے حامیوں کو، اگر ضروری ہواتو، تشدد کاسہارا لے کر ووٹوں سے ڈبے بھرنے پر اکسا رہے ہیں۔ اس دوران اُنھوں نے اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں، وہ اسٹبلشمنٹ کے اندر بغاوت کی آگ بھڑکانے کی بھی کوشش میں ہیں۔ اُنھوں نے موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظریاتی امیدواروں کی بجائے طاقتور روایتی امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ انتخابی دوڑ اتنی شدت اختیار کرتی جارہی ہے کہ مسلم لیگ ن کے دو وفاقی وزرا اپنے عہدوں سے مستعفی ہوکر اپنے حلقوں کی طرف لپکے ہیں تاکہ اپنی پارٹی کے امیدوارں کے لیے مہم چلا سکیں۔


گزشتہ اپریل میں تحریک انصاف کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد  اسٹبلشمنٹ فوری انتخابات کی حامی تھی کیوں کہ عمران خان کی مقبولیت تیزی سے گرتی جارہی تھی۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے ملک کو مہیب معاشی بحران سے نکالنے اور آئی ایم ایف کو راضی کرنے کی ذمہ داری اٹھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے تو اس نے فیصلہ بھی ن لیگ پر چھوڑ دیا۔ اب اگر عمران خان کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں تو یہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکتی ہے۔


سازش کی ایک تھیوری پہلے ہی گردش میں ہے جس کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد اسٹبلشمنٹ پی ڈی ایم حکومت کو دھکا دے کر اکتوبر تک تازہ انتخابات کا انعقاد کراسکتی ہے۔ یہ انتخابات اس کے اصل مقاصدپورے کرسکتے ہیں:  تازہ انتخابات کے لیے عمران خان کی طرف سے ڈالے گئے دباؤ کا رخ موڑنااور ایک معلق پارلیمنٹ یقینی بنانا جس میں اسٹبلشمنٹ ایک مرتبہ پھر اپنی مرضی سے ایسی مخلوط حکومت قائم کرسکے جو اس کا حکم مانے۔ بالکل جیسے شہباز شریف اور آصف زرداری کی قیادت میں پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کررہی ہے۔ اس طرح اپنے لیے پریشانی پیدا کرنے والے عمران خان اور نواز شریف، دونوں کو راستے سے ہٹانا۔ سازش کی تھیوری کہتی ہے کہ اس طریقے سے نومبر میں چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے آرمی چیف کی نامزدگی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں اگلا آرمی ایسا ہوگا جو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کے منصوبوں میں ان کے لیے سازگار ہوگا یا پھر وہ خود ہی مدت ملازمت میں ایک اور توسیع لے لیں گے۔


اس دوران ایک اور دلچسپ ڈرامہ جاری ہے۔ خبر سامنے آئی تھی کہ اسٹبلشمنٹ جنرل (ر) پرویز مشرف کو دووجوہ کی بنا پر پاکستان واپس لانا چاہتی ہے۔پہلی یہ کہ ایک سابق آرمی چیف کے سر پر آرٹیکل چھے کی لٹکنے والی تلوار ہٹادی جائے، اور ایسا کرتے ہوئے مستقبل میں بھی ادارے کو اس خطرے سے ہمیشہ کے لیے محفوظ بنا دیا جائے۔اس نے پہلے ہی پشاور ہائی کورٹ کی جنرل (ر) مشرف کو سنائی جانے والی سزا پر عمل درآمد کو ٹال دیا تھا۔ دوسری وجہ اسحاق ڈار اور نوازشریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنا تھا۔جب یہ خبرگرم تھی تو اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ وہ جولائی کے اختتام تک پاکستان واپس آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب جنرل (ر) مشرف کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے جب تک ڈاکٹر گرین لائٹ نہیں دیتے۔ اس پر بہت سی خبری رپورٹیں آنے لگیں۔ کچھ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے اسلام آباد میں قائدین، جیسا کہ شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف نے کہا ہے کہ، جیسا کہ پہلے اعلان کیا گیا تھا، مسٹر ڈار کا وطن واپس نہیں آرہے۔جب کہ کچھ نے مسٹر ڈارکے حوالے سے خبر دی کہ اُن کا وطن واپسی کا منصوبہ تبدیل نہیں ہوا۔ حتمی بات یہ ہے کہ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان بھگوڑا قرار دیے جانے کے خلاف ان کی تین سال پرانی درخواست کی سماعت کرے گی؟ اگر عدالت کا فیصلہ اُن کے حق میں آتا ہے تو وہ واپس آکر نیب مقدمات کا سامنا کریں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہوگا کہ انصاف ابھی تک اسٹبلشمنٹ کی سیاست کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ کیا یہ سب کچھ کسی جچے تلے منصوبے کا حصہ تھاجس سے یہ دکھانا مقصود تھا کہ اسٹبلشمنٹ اُن کی واپسی میں سہولت کاری کے لیے تیار ہے،جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ یہ تو صر ف وقت ہی بتائے گاکہ آنے والے مہینوں میں اعلیٰ عدلیہ اور جنرل باجوہ کے فیصلے کس طرح سامنے آتے ہیں، اور کیا پی ڈی ایم کی قیادت ان کے سامنے مزاحمت کرپاتی ہے یا نہیں۔


سیاسی اور معاشی منظر نامہ تاریک دکھائی دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام سے معاشرے کے تمام طبقے،خاص طور پر غریبوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس کی وجہ سے سرمایہ کاری اور معاشی نمو کا عمل رک جائے گااور بے روزگاری بڑھ جائے گی۔ دہرے ہندسے تک پہنچنے والی مہنگائی کے تدارک کے لیے کچھ نہیں ہوپائے گا۔ اگر پی ڈی ایم کی حکومت نے دولت مند طبقے پر بھاری ٹیکس عائد نہ کیا، نقصان کا باعث بننے والے ریاستی اداروں کو نجی تحویل میں نہ دیا، پہلے سے ہی مراعت یافتہ طبقے کو سبسڈی دینے کا سلسلہ نہ روکا او ر ہموار اور پائیدار ترقی کے لیے بنیادطے نہ کی، جس کے لیے اندرونی اور بیرونی کشمکش پر قابو پانا ضروری ہے، تو ہم مایوسی اور مسائل کے جنگل سے کبھی باہر نہیں نکل پائیں گے۔