پس چہ باید کرد؟

پس چہ باید کرد؟

تما م لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو اپنی قومی زندگی کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ سیاسی جمود اور آئینی انحراف نے اس مسلے کو سنگین تر کردیا ہے۔ ہم اس نہج تک کیسے پہنچے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اب ہم اس سے کیسے نکل سکتے ہیں؟سول ملٹری حکمران اشرافیہ، جاگیردار، جنرل، جج، سرکاری افسر اور کاروباری افرادنے ہمیں اس نہج تک پہنچا یا۔ عشروں سے امریکی اور عالمی امداد کے بل بوتے پر اُنھوں نے درآمد شدہ اشیائے صرف کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ایسی معیشت قائم کی جس کا بڑی حد تک انہی کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔ اس میں درآمدی اشیا کا کوئی متبادل نہیں۔اس میں بہت کم ٹیکس جمع ہوتا ہے، مالیاتی اورتجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے، غیر پیداوری دفاعی بجٹ کا بوجھ اس کے علاوہ ہے۔ اس کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا انبار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے تیار شدہ مصنوعات کی بجائے افرادی قوت برآمد کرنے سے ہم محض اپنا معاشی بچاؤ ہی کرپائے ہیں۔ لیکن امریکی مہربانی کا دور تمام ہوا۔ معاشی عدم توازن کے اس کھیل میں فوائد، سہولیات اور مراعات کا رخ اشرافیہ کی سمت رہا۔ اس کے نتیجے میں دولت اور آمدنی کی عدم مساوات، گرانی، افراط زر، کرنسی کی قدر کی گراوٹ کا عمل تیز ہوا۔ چنانچہ آج ہم اخراجات اور قرض کی واپسی کے لیے رقم کے حصول سے قاصر ہیں۔


اشرافیہ کے ماہرین معاشیات کا تجویز کردہ حل اندرونی اور بیرونی ذرائع سے مزید قرض لینا ہے۔ لیکن مسلہئ یہ ہے کہ اب قرض دینے والے بھی پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالنے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں تا وقتیکہ بہت دیر سے التو میں ڈالی جانے والی پریشان کن لیکن ضروری اصلاحات کی جائیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ مجوزہ سخت اقدامات دولت مند اور خوش حال طبقے کی بجائے غریب افراد کا جینا دوبھر کردیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا ووٹ لے کر اقتدار میں آنے کے خواہش مند سیاسی اسٹیک ہولڈر کے لیے عوام پر ایسا دباؤ ڈالنا آسان نہیں۔


تحریک انصاف حکومت کے گزشتہ چار برسوں کے دوران معاشی صورت حال بد سے بدتر ہونے کی وجہ سے ادائیگیوں کا عدم توازن سرخ لکیر پار کرگیا۔ یہ وہ موقع تھا جب اس وقت کی حزب اختلاف اور اسٹبلشمنٹ نے اقتدار تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک اور لازمی عنصر عمران خان کا اگلی مدت کے لیے اپنے اقتدار کو غیر آئینی طریقوں سے یقینی بنانے کی کوشش تھا۔اُنھوں نے بوجوہ سماجی خلیج مزید گہری کردی اور ادائیگیوں کے عدم توازن کو بگڑنے دیا جس نے پاکستان کی گویا کمر توڑ دی۔ اب ہمارے سامنے نت نئے بحران سراٹھائے کھڑے ہیں۔


عمران خان بھی جوابی وار کررہے ہیں۔ وہ پی ڈی ایم کی نئی حکومت کو اقتدار پر دیر تک موجود رہ کر معیشت کو سنبھالنے کا موقع نہیں دیں گے تا کہ پی ڈی ایم اس کا انتخابی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اسٹبلشمنٹ کے جن لیڈروں نے عمران خان کو سہارا دے کر اقتدار پر بٹھائے رکھنے سے گریز کیا تھا، اب اُنھیں اپنی صفوں کے اندر سے بے پناہ دباؤ کاسامنا ہے کہ فوری عام انتخابات کراتے ہوئے عمران خان کو ایک موقع اور دیا جائے۔ لیکن ایسا کرنا معیشت کو سخت زک پہنچائے گا، جسے فوری طور پر سنبھالا دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت کو فریق ثانی کے ساتھ یہ ”سمجھوتا“ کرنا ہے کہ اسے سخت اور غیر مقبول فیصلے  لینے ہیں۔ اس لیے اسے کم از کم اٹھارہ ماہ دیے جائیں تا کہ ان فیصلوں کے ثمرات سامنے آنا شروع ہوجائیں۔


ان حالات میں اسٹبلشمنٹ کے لیڈروں نے یوٹرن لیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر عمران خان کی حمایت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے۔ اب وہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ اگلے دو ماہ میں مشکل فیصلے کرلیں اور پھر تازہ انتخابات کرا کر اگلے اکتوبر سے نئی حکومت کا قیام عمل میں لائیں۔ اس وقت نئے آرمی چیف کی تقرری کا اہم فیصلہ کرنا ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں اسٹبلشمنٹ ہر لحاظ سے اپنا فائدہ چاہتی ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنے حصے کا کیک کھا لے اور اس کے پاس کیک بچ بھی جائے۔


لیکن پی ڈی ایم کے لیے تباہ کن صورت حال ہوگی۔ اگر اس کے فیصلوں نے ووٹروں کی زندگی اجیرن کردی تو اگلے عام انتخابات میں اس کا صفایا ہوجائے گا۔ اور یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم طاقت ور اسٹبلشمنٹ کے سامنے مزاحمت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ نہ ہی یہ عمران خان کی مقبولیت کی لہر کو دباسکتی ہے تاوقتیکہ اس کے انتظامی اقدامات کو اسٹبلشمنٹ کی تائید حاصل ہو۔ اس وقت جب کہ اسلام آباد اور لاہور میں اس کے پاس ناکافی پارلیمانی اکثریت ہے تو یہ آئینی مزاحمت کی پوزیشن میں بھی نہیں، خاص طور پر جب ججوں اور جنرلوں کے درمیان تال میل کی بازگشت سوشل میڈیا پرسنائی دے رہی ہے۔


لندن میں مسلم لیگ ن کے اکٹھ کا مقصد اس مخمصے سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا تھا۔ وہاں اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ اسے قومی مفاد میں  توانائی کی قیمتوں میں اضافے سمیت آئی ایم ایف کے مطالبات پردستخط کردینے چاہییں، بشرطیکہ اسٹبلشمنٹ  2023  کے طے شدہ عام انتخابات تک اس کے پاؤں تلے سے زمین نہ سرکادے، ورنہ اُنہیں مشکلات کا شکار مشتعل رائے دہندگان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم لندن سے واپس آئے توصورت حال راتوں رات بدل گئی تھی۔ اسٹبلشمنٹ چاہتی تھی کہ پی ڈی ایم اب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرے اور بجٹ 2022-23  کا بجٹ پیش کرکے اکتوبر سے پہلے نئی حکومت کے قیام کے لیے فرمانبرداری کے ساتھ خود ہی جولائی میں اسمبلیاں تحلیل کر دے۔ قدرتی طور پراسے اسٹبلشمنٹ کی ایک اور دغابازی سمجھا گیا۔ اب ان کا سوال یہ ہے کہ ہم سلیکٹرز کے مہرے کے پھیلائے ہوئے گند کو کیوں صاف کریں اور پھر اس کی قیمت انتخابی شکست کی صورت کیوں ادا کریں؟ کیوں نہ اسٹبلشمنٹ کے چنے ہوئے نگرانوں کو یہ کام کرنے دیں کیونکہ وہ انتخابات میں جوابدہ نہیں ہوں گے۔


پی ڈی ایم کے ناقدین پوچھتے ہیں کہ جب یہ معاملات سنبھال ہی نہیں سکتی تھی تو اس نے اقتدار کی ذمہ داری کیوں قبول کی؟ یہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے پر کیوں راضی نہیں ہوئی جیسا کہ عمران خان نے ان کی معزولی کے موقع پر حکم جاری کیا تھا اگر بالآخر چھ ہفتے بعد وہی معاملہ سامنے آنے والا تھا؟ جواب آسان ہے:  اس وقت خیال یہ تھا کہ پی ڈی ایم کی حکومت  2023 تک معاملات سنبھال لے گی۔ اس وقت گمان نہیں تھا کہ اسٹبلشمنٹ اس طرح یوٹرن لے گی۔کچھ کا اصرار ہے کہ ایک بہتر آپشن یہ ہوتا اگر عمران خان کو  2023 تک حکومت کرنے دی جاتی تاکہ وہ پوری طرح بدنام ہوچکا ہوتا، بجائے اس کے کہ انہیں جلد بازی میں نکال کر عوام کو بھڑکانے اور پھر واپس آنے کا موقع فراہم کردیا جاتا۔ اس کا جواب بھی سادہ ہے: پی ڈی ایم کوبجا طور پر خدشہ تھا کہ اگر عمران خان نومبر 2022 میں اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر کرنے تک اقتدار میں رہے، تو وہ اپنی خدمات 2023 کے انتخابات میں دھاندلی کے لیے استعمال کریں گے جیسا کہ انھوں نے 2018 میں کیا تھا۔ اس طرح وہ اگلے پانچ سال کے لیے اقتدارسنبھال کر اداروں اور طاقت ور ادارے کو استعمال کرتے ہوئے باقی ماندہ حزب اختلاف کو کچل دیں گے۔


جیسا کہ صورت حال دکھائی دیتی ہے، توقع ہے کہ پی ڈی ایم حکومت راستے سے ہٹ جائے گی اور توقع کرے گی کہ نگران حکومت آئی ایم ایف سے معاہدے پر دستخط کرے۔ لیکن ہم یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ نگراں کب تک رہیں گے، کیا انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے، آیا یہ انتخابات وقت پر ہوں گے یا کسی عذرداری کے ذریعے ملتوی کر دیے جائیں گے، جسے عدلیہ نے جائز قرار دے دے گی، اور اگلا آرمی چیف کون مقرر کرے گا، یا موجودہ کی مدت میں ہی توسیع ہوگی؟


سردست آصف زرداری اسٹبلشمنٹ اور پاکستان مسلم لیگ ن کو قائل کرنے کی آخری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت کو قائم رکھیں اور بقیہ پارلیمانی مدت پوری کریں۔ انھیں یقین ہے کہ وہ مل کر عمران خان کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں اور ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لا سکتے ہیں۔


فوری نتیجہ جو بھی نکلے، ریاست اور معاشرے کا سیاسی بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔ درحقیقت، ہم اس امکان کو رد نہیں کر سکتے کہ سیاسی انتشار کے اگلے دور میں، جو کہ ناگزیر دکھائی دیتا ہے، تمام سیاسی اسٹیک ہولڈر، بشمول پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ کے خلاف ایک صفحے پر ہوکر سولین خود مختاری (اگر بالادستی نہیں) کے لیے کمربستہ دکھائی دیں گے۔