افسانوی بیانیے پر حقیقت کی جیت

افسانوی بیانیے پر حقیقت کی جیت

”ایک گولی چلائے بغیر پاکستانی عوام پاک فوج کو گالیاں دے رہے ہیں۔ انڈیا کروڑو ں روپے خرچ کے بھی یہ مقصد حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ اور اس سب کے پیچھے جو شخص ہے، وہ عمران خان ہے۔ وہ ہمارا بہترین دوست ثابت ہوا ہے۔“ یہ الفاظ ہیں انڈیا کے مقبول دفاعی تجزیہ کار، میجر(ر) گوریو آریا کے۔ وہ اس تاثر کو زائل کررہا ہے کہ عمران خان بھارت مخالف ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے حامی حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں۔


گزشتہ ہفتے آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں وضاحت کردی کہ ایک ماہ پہلے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کسی بھی امریکی سازش کے تصور کو مسترد کردیا تھا۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے اس تحقیق کی تصدیق کردی ہے۔لیکن تحریک انصاف کے حامی حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں۔


عمران خان نے بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس تک ہیلی کاپٹر میں سفر پر ایک ارب رپوں کے قریب رقم خرچ کر ڈالی۔ دوسری طرف فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے سفر پرایندھن کا خرچ 55   روپے فی کلو میٹر ہے۔ عمران خان توشہ خانے سے 200   ملین روپوں  کے درجنوں قیمتی تحفے مارکیٹ نرخ کا ایک معمولی سا حصہ ادا کرکے گھر لے گئے۔ اس پر تحریک انصاف کے کارکنان کا کہنا ہے، ”تو کیا ہوا؟ وہ ایسا کرنے کے حق دار تھے۔“عمران خان اعتراف کرتے ہیں کہ اُنھوں نے ان تحائف میں سے کچھ فروخت بھی کردیے تھے۔ لیکن تحریک انصاف کے حامی حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں۔


فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کے اپنے ہاتھ سے چنے گئے ساتھیوں کے اربوں کے غبن کا انکشاف ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے فرد جرم میں سات سال کی تاخیر کے بعدابھی بھی تحریک انصاف کے وکلااسے طول دینے پر مصر ہیں۔ اور تحریک انصاف کے حامی حقیقت کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔


عمران خان کا دور حکومت بدعنوانی، غیر جمہوری اور غیر آئینی کاموں اور فسطائی طرزعمل سے عبارت تھا۔ دھیرے دھیرے ٹھوس حقیقت افسانوی ملمع کاری کا پردہ چاک کرتے ہوئے باہر آرہی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے حامیوں کا اصرار ہے کہ ایسے الزامات صرف شریفوں اور زرداریوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ وہ حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔


اب جب کہ تحریک انصاف اقتدار سے باہر ہے، وہ فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جب حزب اختلاف تین سال تک چیخ چیخ کر عمران خان پر دھاندلی زدہ انتخابات کی بنیاد پر ''سلیکٹڈ'' وزیر اعظم ہونے کا الزام لگا کر یہی مطالبہ کررہی تھی تو عمران خان پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہے تھے۔ تحریک انصاف کے حامی پوچھتے ہیں کہ عمران خان کو ”جمہوریت اور سویلین بالادستی کے وسیع تر مفاد میں“اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟یہ سوال کرنے والے اس ننگی حقیقت کو صاف بھول جاتے ہیں کہ عمران خان نے  2008 ء سے لے کر 2018  ء کے درمیان کا زیادہ تر عرصہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو قبل ازوقت گرانے کے لیے احتجاجی مظاہروں میں ہی گزارا تھا۔


تحریک انصاف کے پروپیگنڈا سازوں نے عمران خان کو سہارا دینے کے لیے ایک طاقتور بیانیہ تیار کیا ہے۔ یہ کسی قدراحتیاط سے تیار کردہ تصورات پر مبنی ہے۔ ”وہ امریکہ مخالف ہے“۔۔۔ کیا ہوااگر دو سال قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گلے لگ کر واپس آنے کے بعد وہ اتنے پرجوش تھے جیسے اس وقت جب پاکستان کے لیے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ ”وہ سامراج مخالف ہے“۔۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر وہ بیک وقت سرمایہ داری کے حامی اور سامراج مخالف ہونے کے پرفریب تضاد کی علامت ہیں۔ ”وہ ایک مقبول عام لیڈر ہے“۔۔۔اب کیا کیا جائے اگر ان کے افعال کا اس اصطلاح سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ان کی ایک ایک حرکت سے آمریت اور فریب کاری جھلکتی ہے۔ ”وہ ایک اسلامی قوم پرست ہے“۔۔۔ تو کوئی نئی بات نہیں۔ آمر جنرل ضیاء الحق بھی ایسے ہی تھے۔ اس وقت بھی جب وہ افغانستان میں امریکی مفادات کی تکمیل کررہے تھے۔


یہ خیال کہ وہ اتنے ”مقبول“ہیں کہ وہ کسی بھی آزاد الیکشن میں جیت سکتے ہیں، بھی غلط ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی جنہوں نے ڈی سیٹ ہونے کی یقینی سزا کے باوجود تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ دیا، وہ ڈٹے رہتے۔ زیادہ تر نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کا ٹکٹ اگلے انتخابات میں یقینی شکست کا باعث بنے گا۔ ان کے حامی پارٹی سے اس قدر بدظن ہوچکے ہیں۔ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم سب سے بڑے صوبے پنجاب میں، جس کی پارلیمنٹ کی نصف سے زیادہ نشستیں ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کی انتخابی جیت کے امکانات تحریک انصاف سے بہت بڑھ کر ہیں۔


لیکن اگر ایسا ہے تو تحریک انصاف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ پھرعمران خان کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے دیتے اور انتخابی معرکے میں شکست دیتے۔


پی ڈی ایم نے عمران خان کو انتخابات میں شکست دینے کے لیے اگلے سال تک انتظار کرنے کے بجائے اب عمران خان کو ہٹانے اور تباہ حال اور برباد شدہ معیشت کابوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کا خطرہ مول لیا ہے تو اس کی ایک وجہ ہے۔ اگر خان نومبر 2022 سے آگے چلتے تو وہ اگلے آرمی چیف کو 2023 کے انتخابات میں دھاندلی میں مدد دینے کے لیے چن لیتے (وہی جس نے 2018 میں یہ خدمت سرانجام دی اور اس کے بعد اسے آگے بڑھایا، وہی جس پر اس نے آرمی ہائی کمان کے ساتھ لڑائی کی) اور وہ مل کر اپوزیشن کو ختم کر دیتے، ہائبرڈ حکومت کو مضبوط کرتے اور اگلے چھ سالوں میں ایک مرکزی آمرانہ نظام کو مستحکم کردیتے۔ اس لیے پی ڈی ایم کے لیے ”زندگی یا موت“ اور ”اب، یا کبھی نہیں“ والی صورت حال تھی۔


اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عمران خان اب کیوں فوری الیکشن چاہتے ہیں؟ اُن کا خیال ہے کہ وہ اپنے مقبول عام بیانیے کے ذریعے اپنی حمایتی اساس کو پھر سے زندہ کرچکے ہیں،اور جلدی انتخابات ہوں تو وہ جیت کر نومبر 2022 میں کرسی پر براجمان ہو جائیں۔ ان کا ہدف پاکستانی فوج کی اعلیٰ کمان ہے جس کی غیر جانبداری نے پی ڈی ایم کو موقع دیا کہ وہ اتحادی اکھٹے کرکے عمران خان کو چلتا کردے۔ ا س سے پتہ چلتا ہے کہ جس اتحاد کی حمایت سے عمران خان کو اقتدار ملا تھا، اس کی اساس کتنی کمزور تھی۔اب عمران خان فوج کی صفوں میں رخنہ ڈال کر ہائی کمان پر دباؤ ڈالنے کی امید کررہے ہیں کہ وہ اپنے عہدے پر واپس آنے کا راستہ ہموار کرسکیں۔ گویا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اب ان کی ساری سیاسی حکمت عملی الیکشن جیتنے کی کوشش کی بجائے ناراض اور لاتعلق ہوجانے والی اسٹبلشمنٹ سے این او سی حاصل کرنے پر ہے۔تو جس بات پر ہمارا ر وایتی دشمن میجر (ر) گوریوآریا خوشی سے پھولا نہیں سما رہا، وہی تو عمران خان کررہے ہیں۔


پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد چھے کروڑ ہے۔ 100 سے بھی کم تحریک انصاف کے کارکنوں کے ذریعہ 1000 سے بھی کم BOTs نے پاکستان میں ضیا دور کے بعد پیدا ہونے بچوں کی خوفناک برین واشنگ کی ہے۔ پاکستان کی تقریباً 22 فیصد یا 50 ملین آبادی 18 سے 30 سال کی عمر کے درمیان ہے اور ہر سال 4 ملین افراد اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ پھیلتی ہوئی نوجوان آبادی کا ایک حصہ


تحریک انصاف کے بیانیے سے متاثر ہے۔ شکر ہے کہ ابھی بھی ایک اور پاکستان موجود ہے جس کی اکثریت کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکا۔ اور اگر اس ہفتے عمران خان کے لاہور جلسے میں نسبتاً معمولی ہجوم اور ان کی بے جان، بار بار دہرائی جانے والی تقریر کو دیکھا جائے تو یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ موجودہ جذبہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے گا۔ یہاں مریم نواز شریف کو پی ڈی ایم کی طاقت دکھانے کے لیے باہر آنا چاہیے۔اگر پی ڈی ایم کی حکومت عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے انہی سوشل میڈیا ٹولز کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو ان کی عظیم مقبولیت کا غبارہ بہت جلد پھٹ سکتا ہے۔ بالآخر حقیقت ہی فتح یاب ہوگی۔