پی ڈی ایم کی چھلانگ

پی ڈی ایم کی چھلانگ

پی ڈی ایم کی حکومت نے بالآخر چھلانگ لگا ہی دی ہے۔ مختلف امکانات پر غور کرتے ہوئے دوہفتوں کے تذبذب کے بعد اس نے قدم جمانے،عمران خان کے فوری تازہ انتخابات کرانے کا فیصلہ مسترد کرنے، آئی ایم ایف کی شرائط پر دستخط کرنے، سخت بجٹ بنانے اور اسٹبلشمنٹ کی مدد یا اس کے بغیر ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ چوں کہ انتخابات کا جلد یا بدیرانعقاد ہونا ہے، صرف وقت ہی بتائے گا کہ کیا یہ فیصلہ دانش مندانہ تھا یا نہیں۔


پہلا آپشن تو یہ تھا کہ تیزی سے انتخابی اور نیب قوانین میں ترمیم کریں اور اگست یا ستمبر میں انتخابات کرانے کے لیے نگران حکومت قائم کرکے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت عوام پر بوجھ ڈالے بغیر گھر چلے جائیں۔ یہ آپشن اختیار کرنے کی وجہ واضح تھی:  عمران خان کا پھیلایا ہوا گند  اسٹبلشمنٹ کو صاف کرنے دیں جو چار سال تک ان کی تباہ کن بدانتظامی سے چشم پوشی کرتی رہی تھی۔ اس کے ساتھ یہ بیانیہ بھی ارزاں کریں کہ پی ڈی ایم نے عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کی بجائے عہدے اور اختیارات پر لات مارنے کو ترجیح دی۔ اس موقف کے انتخابی نتائج پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں کے لیے سازگار ہوتے۔


دوسرا آپشن اسٹبلشمنٹ کی تعمیل کرنا تھا:  پہلے سخت فیصلے کرتے ہوئے آئی ایم ایف اور دیگر عطیہ دہندگان کو پاکستان کی طرف واپس لائیں اوراس گھمبیر معاشی بحران کو ٹالیں، اور پھر ستمبر میں انتخابات کرادیں۔ انتخابات کرانے کے اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کے سامنے پی ڈی ایم دم نہیں مارسکتی کیوں کہ ایم کیو ایم اور بی اے پی کا بلاشرکت غیرے کنٹرول اس کے پاس ہے۔ اور پی ڈی ایم کی بقا کا دارومدار انہی دو جماعتوں کے ووٹوں پر ہے۔ مئی کے وسط میں لندن میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ، نوا زشریف نے اس آپشن کو مسترد کردیا تھاکیوں کہ اس کی وجہ سے پی ڈی ایم رائے دہندگان کی ناراضی مول لیتی۔ وقت نہ ملنے کی وجہ سے معاشی پالیسیوں سے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا موقع نہ ملتا۔


اب ہوا یوں کہ جب حکومت باہر نکلنے کی حکمت عملی بنا رہی تھی، عمران خان کے 25 مئی کے لانگ مارچ کے اعلان کی وجہ سے قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کرنے کا موقع اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ کوئی بھی پارٹی یا حکومت اس طرح بلیک میلنگ دباؤ کے سامنے کیسے جھک سکتی ہے؟ پھر وہ ووٹرکو کیا منہ دکھاتی؟ اس کے برعکس اس نے کمر باندھتے ہوئے لانگ مارچ کے سامنے مزاحمت کرنے اور اسے ناکام بنانے کا عزم کرلیا۔ جب پنجاب سے ناکافی عوامی حمایت کی وجہ سے اور جزوی طور پر حکومت کی سخت مزاحمت کی وجہ سے عمران خان کا خطرہ ٹل گیا تو پی ڈی ایم نے موقع غنیمت جانا اور خود کو اسٹبلشمنٹ کا منظور نظر بنانے کے لیے سخت فیصلہ کرنے پر رضا مند ہوگئی تاکہ معیشت کی ڈوبتی سانسیں بحال کی جاسکیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے لاحق خطرے کو ہمیشہ کے لیے پسپا کیا جاچکا کہ پی ڈی ایم کی حکومت 2023 کے آخر تک قائم رہے گی، اور یہ کہ اسٹبلشمنٹ کو آخر کار اپنا طویل کھویا ہوا سیاسی ساتھی مل گیا ہے اور وہ تحریک انصاف کا ہاتھ جھٹکنے کی متحمل ہو سکتی ہے؟


نہیں۔ دوعوامل ایسے نتائج کے پرخچے اُڑاتے ہیں۔ پہلا عمران خان اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ اُنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ مقبول حمایت حاصل رکھتے ہیں۔ ان کے حامی بہت پرجوش اورپرعزم ہیں،اور زندگی کے ہر طبقے میں ان کی نمائندگی موجود ہے۔ وہ کسی بھی عام انتخابات سے پہلے، ان کے دوران اور بعد میں کسی بھی نظام کے لیے مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔ دوسرا یہ کہ اسٹبلشمنٹ کے اندر دراڑ ہے: ایک دھڑے کا خیال ہے کہ  اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو پالاتھا لیکن ملک کو سفارتی طور پر الگ تھلگ اور معاشی بحران میں ڈال کر  اسٹبلشمنٹ کی بدنامی کا باعث بنے۔ لہذا انھیں دوبارہ ایسی ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی۔ دوسرا دھڑا اب بھی ان کی حمایت کرتا ہے کیوں کہ وہ شریفوں اور بھٹو زرداریوں سے نفرت کرتا ہے جن کے خاندان نے تین دہائیوں تک ملک پر حکومت کی ہے۔ یہ دھڑا چاہتا ہے کہ عمران خان کھیل کو گرم رکھیں۔ یہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے  اسٹبلشمنٹ کے اندر اختیار کی کشمکش میں مصرو ف ہے تاکہ اپنے اہداف حاصل کرسکے۔ معاملہ اس لیے پیچیدہ ہے کہ دونوں دھڑے چاہتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں کوئی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے تا کہ قومی سیاست پر اسٹبلشمنٹ کی گرفت مضبوط رہے۔


ان حالات میں تحریک انصاف کی پروپیگنڈا مشین یہ ثابت کرنے کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہے کہ 25 مئی کا لانگ مارچ اتنی بڑی کامیابی تھا کہ پی ڈی ایم حکومت عمران خان کی طرف سے دی گئی چھ دن کی مہلت کے سامنے جھک گئی ہے اور آئندہ چند دنوں میں انتخابی شیڈول کا اعلان کردے گی۔ حکومت کا ردعمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ لانگ مارچ فلاپ تھا اور خان دوسری کوشش کرنے سے پہلے دو بار سوچیں گے۔ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے لیے قدم جما چکی ہے۔


آگے کیا ہوگا اس کا انحصار دو اہم عوامل پر ہے۔ پہلا،عمران خان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے چھوٹے بڑے طوفان برپا کرنے کی کتنی سکت رکھتے ہیں تاکہ وہ اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کرحکومت کو جلد از جلد انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور کردے۔دوسرا، جلد از جلد معیشت کو پٹری پر چڑھانے اور عالمی تعلقات بحال کرنے کی حکومت کی کارکردگی پرتاکہ اسے اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہے اور جلد انتخابات کے لیے دباؤ نہ آئے۔


پی ڈی ایم حکومت کے سامنے ایک مشکل کام ہے۔ اس کے اتحادی شراکت دار قابل اعتماد یا قابل بھروسا نہیں ہیں۔ پاکستان کے صدر عارف علوی تحریک انصاف کا نشتر بن کر ہر مرحلے پرحکومت کو لہولہان کرنے کاتہیہ کیے بیٹھے ہیں۔ عدلیہ مجموعی طور پر عمران خان کی حامی ہے جب کہ بظاہر اس کا  اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ نہیں۔ پنجاب میں پی ڈی ایم کی حکومت ججوں کے ہاتھ میں دھاگے سے لٹکی ہوئی ہے۔ عوام آئی ایم ایف کے کفایت شعاری پروگرام کے بوجھ تلے کراہنے والے ہیں اور کئی طریقوں سے اپنی ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں۔ اور عمران خان کی پروپیگنڈا مشین کا مقصد پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو مسلسل ہدف بنانا ہے تاکہ اُنھیں کام کرنے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔


اس لیے اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اگلے دو مہینوں میں پی ڈی ایم کی سکت جواب دے جائے اور انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اس کے بعد نگران حکومت آئے گی اور حکومت کی باگ ڈور براہ راست  اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں چلی جائے گی جسے عدلیہ کی معاونت بھی حاصل ہوگی۔ نگراں کب تک رہتے ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں یہ  اسٹبلشمنٹ کے ایجنڈے میں اگلی چیز ہوگی ۔ بہت کچھ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ کون سی پارٹی اکثریت حاصل کرے گی اور اس سال دسمبر میں راولپنڈی میں کون سا فور سٹار جنرل راج کرے گا۔ بس دیکھتے رہیے۔