تباہ کن ہائبرڈ نظام حکومت کے تخلیق کار اور منصوبہ ساز آخرکار اسی کا شکاربنے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ تصور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشااور لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کا وضع کردہ تھاجسے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے آگے بڑھایااور چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ نے ڈی جی آئی ایس آئی، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے دفاتر کے ذریعے عملی شکل دی۔ جس شخص، عمران خان، کی اُنھوں نے پشت پناہی کی، جسے سہارا دے کر اٹھایا، وہ ان کے لیے اتنا بڑا بوجھ ثابت ہوا کہ اسے اتار پھینکنا پڑا۔ یہ عمل بذات خود ان کی سز ا بن گیا۔ اس کے نتیجے میں قائم کردہ ہائبرڈ نظام زمین بوس ہوگیا۔ ترتیب دی گئی یہ بے ہنگم دھن عمران خان کی نرگسیت، نااہلی اور بدعنوانی کے تھپیڑوں کی تاب نہ لا سکی،جب کہ اس دوران جنرل باجوہ کے عزائم اور جنرل فیض حمید کی سفاک سازشوں کا سلسلہ اپنی جگہ دراز تھا۔ جس موسیقار،نواز شریف، کی دھن حتمی طور پر کامیاب ہوئی وہ لندن میں ہے، جب کہ سازبجانے والے کلاکار، آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں تکیے جمائے بیٹھے ہیں۔ اب کیا ہوگا؟
صورت حال خاصی مبہم ہے۔ غلطیوں اور کوتاہیوں کاعتراف کرنے، اور اصرار کرتے ہوئے کہ اُنھوں نے فوج کو واپس بیرکوں میں بھیج دیا ہے، جنرل باجوہ منظر عام سے رخصت ہوئے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ مستقبل میں کسی ممکنہ سیاسی مہم جوئی کا راستہ روک رہے ہوں۔ لیکن فوج کی تاریخ اور میراث کو دیکھیں تو ایسا کہنا آسان، کرنا مشکل ہے۔ چوں کہ سیاسی جمود اور معاشی بحران جاری ہیں، اس لیے ابھی واضح نہیں کہ نئے آرمی چیف، جنرل عاصم منیر آئی ایس آئی کے سیاسی بازو کا رخ کس سمت موڑیں گے۔
عمران خان نے بھی اپنے لانگ مارچ کا بادبان اتار دیا ہے کیوں کہ وہ اپنے دونوں اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا، جو کہ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکنا اور پی ڈی ایم حکومت کو گرانا تھا۔ عمران خان پسپا تو ہوگئے ہیں لیکن میدان سے رخصت نہیں ہوئے۔ اس کی ایک وجہ تو ان کی استقامت ہے،دوسری انھیں حاصل جذباتی عوامی حمایت اور تیسری پی ڈی ایم حکومت کی غیر متاثر کن کارکردگی ہے۔اس حکومت پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے مشکل معاشی پالیسیاں بنانے کی ذمہ داری تھی۔
سیاسی شطرنج کی بساط پر عمران خان کی تازہ ترین چال ان صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان ہے جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ انھیں توقع ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی گراوٹ میں مزید اضافہ ہوگاجس سے جنرل عاصم منیر کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ مداخلت کرنے پر مجبور ہوجائے گی اور وفاقی حکومت پر زور دے گی کہ عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔
جہاں تک پی ڈی ایم حکومت کا تعلق ہے تو توقع ہے کہ یہ اپنے قدموں پر کھڑے رہتے ہوئے عمران خان پرہرگز ترس نہیں کھائے گی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں، خاص طور پر عمران خان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات پر دل جمعی سے تیز تر کارروائی کی جائے گی۔ اسلام آبا پنجاب میں حکومت سازی کے لیے بھی قدم بڑھائے گا کیوں کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں عوام کے دل جیتنا انتخابی حکمت عملی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔چنانچہ ہم توقع کرسکتے ہیں کہ عمران خان شور شرابا مچا کر عدالتوں اور اسٹبلشمنٹ کو میدان میں گھسیٹ لانے کی کوشش کریں گے۔
اس دوران بوجھل ہوتے ہوئے سیاسی موسم میں پہلے سے ہی نڈھال معیشت مزید نیم جان ہوجائے گی۔ پاکستان کو دی جانے والی بین الاقوامی اور دو طرفہ مالی امداد کا زیادہ تر انحصار سیاسی اور معاشی استحکام پر ہے۔ چونکہ عمران خان کی حکمت عملی قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنے کے لیے افراتفری پھیلانا ہے، لہذا وہ اس محاذ کو گرم رکھیں گے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی معاشی گراوٹ یا کمی کی خبریں آئیں گی جو خان صاحب کو حکومت کے گرد شکنجہ کسنے اور اس پر ضربیں لگانے کا موقع فراہم کریں گی۔ پی ڈی ایم دعا کر رہی ہے کہ اس کی حکومت اگلے سال کے آخر تک وقت نکال جائے تاکہ یہ معیشت کا رخ موڑ سکے اور ووٹروں کو کچھ فائدہ پہنچا سکے۔ عمران خان اس راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
جنرل عاصم فوج کی قیادت سنبھال رہے ہیں جب ملک ان نازک حالات کا شکار ہے۔اُن کے سامنے منقسم اور مجروع ساکھ رکھنے والی قیادت کی میراث ہے۔ نیز معاشرہ بھی انتہائی قطبیت زدہ ہے۔ اس ادارے کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے اندرونی طور پر مضبوط گرفت اور بیرونی طور پر پیچھے ہٹنے کا عزم درکار ہوگا۔ پہلی شرط اعلیٰ اخلاقی معیار، تدبر اور نظم و ضبط پر منحصر ہے۔ دوسرا انحصار اس صلاحیت اور جذبے پر ہے کہ وہ ”قومی مفاد“ کے نام پر طاقت کے کھیل میں کودنے کی ترغیب سے بچ سکیں۔
نواز شریف کی پاکستان واپسی اور مرکزی سیاسی سٹیج پر راج کرنے کی بھی توقع ہے۔ وہ پی ڈی ایم حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے اپنے خلاف سنائی گئی ناروا سزاؤں اور نااہلی ختم کرانے کی کوشش کریں گے۔ نیز عمران خان کو اپنے ہاتھوں سے کھودے ہوئے گڑھے میں گرتے دیکھنا چاہیں گے۔ مجروع اور خستہ حال عدلیہ جس نے باجوہ دور میں اطاعت گزاری کی روش اپنا رکھی تھی، اب وہ عاصم منیر کی اسٹبلشمنٹ کی طرف رہنمائی کے لیے دیکھے گی۔ اور ادھر سے کوئی اشارہ نہ پاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر مناسب یوٹرن لیتے ہوئے طرفین کو کھیلنے کے لیے ہموار میدان فراہم کرسکتی ہے۔
ایک مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ لیکن پاکستان کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ریاست اور معاشرے کے تمام طبقات پر ہائبرڈ رجیم کے زخم گہرے ہیں۔ اپنے طے شدہ آئینی کردار کی حدود میں رہتے ہوئے فوج، عدلیہ، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے سرکردہ اسٹیک ہولڈرز کی شعوری اور اجتماعی کوششوں کے بغیر یہ زخم مندمل نہیں ہوں گے۔ اگلے چھ ماہ بتائیں گے کہ ہم صحیح راستے پر گامزن ہیں یا نہیں۔