کیا نومبر سفاک ترین مہینہ ثابت ہوگا؟ اس کا دارومدار چند سلگتے ہوئے سوالوں کے جوابات پر ہے۔ کیا چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ انتیس نومبر2022 ء کو گھر چلے جائیں گے،جیسا کہ اُنھوں نے کئی مرتبہ اس ارادے کا اعادہ کیا ہے، یا پھر کوئی غیر معمولی پیش رفت اُنھیں اپنے عہدے پر برقرار رہنے پر ”مجبور“ کردے گی؟ کیا عمران خان کا ہزاروں نفوس پر مشتمل لانگ مارچ کوئی دھماکہ کرپائے گا یا پھر آہ وزاری پر ختم ہوجائے گا؟ کیا سیاسی تناؤ ختم کرنے کے لیے عمران خان اور شہباز شریف مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تا کہ اگلے عام انتخابات کی کوئی قابل قبول تاریخ طے کی جاسکے؟ سیاسی کشمکش کا پارہ مزید بڑھانے یا اس پر ثالثی کرنے میں چیف جسٹس آف پاکستان، عمر عطا بندیال کیا کردار ادا کریں گے؟
ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، لیکن جنرل باجوہ کی روانگی پر ابہام کا پردہ پڑا ہواہے کیوں کہ پی ڈی ایم حکومت نے ان کے جانشین کے نام کا ابھی تک اعلان نہیں کیا۔ افواہیں تھیں کہ عمران خان نے مارچ میں حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک کو شکست دینے کے لیے آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع کی پیش کش کی تھی۔ یہ بات اب ثابت چکی ہے۔ اس میں کوئی راز نہیں کہ پی ڈی ایم حکومت بھی انھیں خوش کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ وہ تحریک انصاف کے منڈلاتے ہوئے خطرے کو ٹالنے میں ان کی مدد کریں۔ عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس ماہ پی ڈی ایم حکومت کا بوریا بستر گول کردیا جائے اور نگران بندوبست آجائے۔ اس صورت میں چاہے جنرل باوجوہ آرمی چیف کے منصب پر موجود رہیں یہاں تک کہ انتخابات کے بعد نئی حکومت اقتدار میں آجائے۔ چنانچہ ”غیر سیاسی“ کردار کے عزم کے باوجوداگر تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران معاملات بگڑ جاتے ہیں اور تشدد کی نوبت آجاتی ہے تو یہ بات قابل فہم ہے کہ پھر جنرل باجوہ کو ”مجبورا“ متحارب گروہوں کے درمیان آکر بیچ بچاؤ کرانااور اُنھیں کچھ سمجھانا پڑے گا۔ اس ”اچھے کام“ کے صلے میں ظاہر ہے کہ توسیع تو بنتی ہے۔ یہ صورت حال قبل ازوقت انتخابات کی راہ ہموارکردے گی۔ان حالات میں چیف جسٹس آف پاکستان، عمر عطا بندیال، ”دانائی“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں انتخابات کے بعد نئی حکومت کے آنے تک ایک اور توسیع کی منظوری دے دیں گے۔
اس کا بہت حد تک انحصار اگلے ایک یا دو ہفتوں میں عمران خان کے لانگ مارچ کی نوعیت پر ہے۔ مارچ کا آغاز تو بہت دھیرج سے ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی ہے کہ عمران خان جانتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی غیر معمولی پریس کانفرنس کے بعد اگر اس نے دوبارہ رخ لکیر عبور کی تو اسٹبلشمنٹ جارحانہ اقدامات پر اتر آئے گی۔ دوسری وجہ یہ کہ عمران خان کو ابھی تک امید ہے کہ تشدد کی دھمکی کے بعد پی ڈی ایم حکومت ڈگمگا جائے گی اور مذاکرات کے ذریعے ان کے تمام مطالبات مان لے گی۔ فی الحال طرفین اپنے اپنے عزائم پر کاربند دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُن پر بات چیت کرنے کا دباؤ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ طرفین چیف جسٹس آف پاکستان، عمرعطا بندیال سے اپنا ساتھ دینے کا کہہ رہے ہیں۔عمران خان مارچ کرنا، جب کہ پی ڈی ایم حکومت ان کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔خان کا اصرار ہے کہ مارچ کے شرکا پرامن رہیں گے، لیکن وزیر داخلہ، رانا ثنا اللہ نے تشدد کی آگ بڑھکانے کے تحریک انصاف کے ارادوں کا ثبوت دے دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف مارچ کرنے کا حق رکھتی ہے، لیکن یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ وہ اسے کسی بھی وقت روکنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس دوران اُنھوں نے حکومت پر دباؤ ڈال کر سپریم کورٹ کو اپنے من پسند جونیئر ججوں سے بھر لیا ہے۔ مریم نواز کی بریت کا راستہ روکنے اور پی ڈی ایم کی چوٹی کی قیادت کو نجات دلانے والی نیب قانون میں ترمیم کو غیر قانونی دینے کی دھمکی نے حکومت کو سمجھوتے پر مجبور کردیا۔ حتیٰ کہ اسے اپنے وزیر قانون اعظم تارڑ کی بھی قربانی دینا پڑی۔ مسٹر تارڑ نے مجبور ہو کر اپنے بار کے مفادات کے برعکس جوڈیشل کمیشن میں جسٹس بندیال کے نامزدگان کے حق ووٹ دیا تھا۔
پس منظر میں ایک اور جدوجہد کے خدوخال بھی واضح ہورہے ہیں۔ چوٹی کے کم از کم پانچ جنرل فوج کے اہم ترین عہدے کے لیے مسابقت کی دوڑ میں ہیں جب انتیس نومبر کو جنرل باجوہ اپنی وردی اتار دیں گے۔ اگر کسی غیر معمولی پیش رفت کی وجہ سے جنرل باجوہ ایسا نہیں کرتے تو مذکورہ جنرل ان کی مدت تمام ہونے سے پہلے ریٹائر ہوکر گھر چلے جائیں گے۔ لہذا ان کی مفاد اس میں ہے کہ ملک میں کسی قسم کی پرتشدد کشمکش نہ ہو، عمران خان کو ہنگامہ آرائی سے دور رکھیں تاکہ اپنے چیف کو سکون کے ساتھ جاتا دیکھ سکیں۔ پاکستان کی حالت زار کا یہ عالم ہے کہ دو ادارے جنھیں ”سیاسی طور پر غیر جانبدار“ ہونا چاہیے۔۔۔ فوج اور عدلیہ۔۔۔انتہائی دخل مداخلت کار اور متنازع ہو چکے ہیں۔ بدترین بات یہ ہے کہ ان کے سربراہان اپنی طاقت اور جھکاؤ کا بلاروک ٹوک، کھلا مظاہرہ کررہے ہیں۔
اس صورت حال سے جڑی دہری ستم ظریفی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اگر چہ فوج کی اعلیٰ قیادت کا اصرار ہے کہ یہ غیر سیاسی اور نیوٹرل ہوچکی ہے، اور مستقبل میں بھی اسی راہ پر گامزن رہے گی، لیکن تحریک انصاف اور پی ڈی ایم، دنوں اس کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔ ایک جماعت اسے دھمکا رہی ہے، دوسری اسے رام کرنے کی کوشش میں ہے۔ ان حالات میں جنرل ممکنہ طور پر ریاست کو دیوالیہ اور عدم استحکام کا شکار ہوتے دیکھ کر ”قومی مفاد“ میں کوئی فیصلہ کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے،جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
دوسری ستم ظریفی کا تعلق عمران خان کا فوج کی سیاسی مداخلت پر حملہ آور ہونا ہے جسے غیر معمولی حد تک عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ معمول کے حالات میں اسے، چلیں تاخیر سے ہی سہی، آئینی جمہوریت کی طرف ایک خوش آئندہ پیش رفت کے طور پر دیکھا جاتا۔ لبرل، بائیں بازو کے دھڑے، جمہوریت پسند، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں، نسلی اور اقلیتی گروہوں کی طویل مدت سے کی جانے والی جدوجہد کا مرکزی ہدف تو یہی تھا۔ اس وقت مسلہئ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی ”حقیقی آزادی“ کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا ہدف فوج کی مداخلت کا ڈنگ نکالتے ہوئے کثیر جماعتی آئینی جمہوریت کو تقویت دینا نہیں بلکہ اس کے پنجے تیز کرکے تحریک انصاف کے سیاسی حریفوں کا خاتمہ اور ایک جماعت پر مبنی فسطائی نظام کا قیام ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پاکستان کے عوام نے عدلیہ کی آزادی کے لیے جذباتی انداز میں وکلا تحریک کا ساتھ دیا تھا۔ اس وقت ملک میں آئینی انقلاب آتا دکھائی دے رہا تھا۔ ایک عشرہ بعد ہمارا واسطہ سیاسی طور پر انتہائی جھکاؤ رکھنے والی خود سر عدلیہ سے تھا جس کا کسی طور احتساب کیا ہی نہیں جاسکتا، جیسا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، ثاقب نثار اور آصف کھوسہ۔ آج ایک مرتبہ پھرایک ریاستی ادارے کے خلاف ویسی ہی مقبول عوامی تحریک کی لہر دکھائی دے رہی ہے جو ہمیں آزاد کرنے کی بجائے مزید غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دے گی۔