بدعنوانی کی گھناؤنی داستان

بدعنوانی کی گھناؤنی داستان

براڈ شیٹ کی بیس سال پہلے شروع ہونے والی گندی کہانی کے غلیظ چھینٹوں نے اب نیب کے دامن کو داغ دار کیا ہے۔ بدقسمتی سے ٹیکس دہندگان کی رقم کا ایک خاطر خواہ حصہ نقصان کی تلافی کے لیے ضائع کردیا گیا۔ یہ نااہلی، فریب،غیر شفافیت اور بدعنوانی کی چشم کشا داستان ہے۔


جنرل پرویز مشرف نے 2000   میں نیب کا ادارہ دومقاصد کو سامنے رکھ کر قائم کیا:  اپنی مخالفت کرنیوالے ”بدعنوان“ سیاست دانوں کا تعاقب کرنا، اور دیگر کو بلیک میل کرکے دباؤ ڈالنا تاکہ وہ اُن کی حمایت کرتے ہوئے فوجی حکومت کو قانونی جواز فراہم کریں۔پہلے چیئرمین نیب، جنرل سید ایم امجدکو فوراً ہی ایک بدنام فراڈیے،طارق فواد نے چکما دے کر ایک اور بدنام زمانہ امریکی، جیری جیمز کے جال میں پھنسا دیا۔ مان جزیرے میں قائم ایک فرم براڈ شیٹ کے ذریعے دوسو بدعنوان  سیاست دانوں کے اربوں ڈالروں کا کھوج لگانا تھا جو اُنہوں نے مبینہ طور پر بیرونی ممالک میں چھپائے ہوئے تھے۔ اب یہ اور بات ہے کہ نہ تو جیری جیمز اور نہ ہی براڈ شیٹ ایسے کاموں کا کوئی سابق تجربہ رکھتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ یا تو جنرل امجد کو فواد اور جیمز نے دھوکا دیا، یا وہ خود بھی اس چکر سے مستفید ہوئے۔


یہ مسلہئ 2001-02 ء میں سامنے آیا جب براڈ شیٹ نے کچھ مبینہ بدعنوان افراد کو شناخت کرتے ہوئے اُن کے ”ناجائز“فنڈز کا کھوج لگایا۔ جب نیب نے ان کا تعاقب کرنا چاہا تو جنرل مشرف نے اس فہرست میں سے کچھ نام سیاسی وجوہ کی بنا پر نکالنے کاحکم دیا۔ براڈ شیٹ نے اہداف کی فہرست کی یک طرف کانٹ چھانٹ پر اعتراض کیا کیوں کہ اسے بازیاب کرائے گئے فنڈز کا بیس فیصد ملنا تھا۔ مزید پیچیدگی اُس وقت پیدا ہوئی جب نیب نے اصرار کیا کہ معاہدے کا تعلق صرف بیرونی ممالک میں چھپائی گئی دولت سے ہے جبکہ براڈ شیٹ کا موقف تھا کہ معاہدے میں پاکستان میں چھپائے گئے فنڈز بھی شامل ہیں۔ 2003  ء میں نیب نے معاہدہ ختم کردیا۔ براڈ شیٹ کا موقف تھا کہ نیب یک طرفہ طور پرایسانہیں کرسکتا۔ چنانچہ اس نے معاہدے کی منسوخی پر زرِ تلافی اور ہرجانے کا دعویٰ کردیا۔


اس دوران براڈ شیٹ تحلیل ہوگئی۔ جیمز نے امریکا میں ایک اور ڈمی ”براڈ شیٹ“ کمپنی قائم کرلی اور نیب کو طارق فواد کے ذریعے قائل کرلیا کہ اگر اُسے  1.5 ملین ڈالر ادا کردیے جائیں تو معاملہ ختم ہوجائے گا۔ اب اس معاملے میں ایک اور مشکوک کردار کا شخص، کیوے ماسوی داخل ہوتا ہے جو توہین عدالت میں سزا یافتہ تھا۔ ماسوی نے مان جزیرے کے لیکوڈیٹرز (Liquidators) کو قائل کیا وہ نیب کے خلاف کارروائی میں اُسے بھی فریق بنائیں تاکہ وہ بھی نیب کے خلاف معاہدے کی خلاف ورزی پر کیس کرسکے۔ یہ معاملہ لٹکتا رہا یہاں تک کہ 2016  ء میں ایک برطانوی عدالت نے نیب کے خلاف تمام کارروائی ایک جگہ اکٹھی کرتے ہوئے فریقین کی باہمی رضا مندی سے ایک ثالث مقرر کیا تاکہ زرتلافی کا تعین کرہوسکے۔


اس دوران ماسوی نے تین غیر ملکی بنکوں میں نواز شریف کے مبینہ طور پر چھپائے گئے ایک بلین ڈالروں کا سراغ لگانے کا دعویٰ کیا۔ کئی ایک گمنام ذرائع کے توسط سے اس نے 2018  ء کے اختتام کے قریب تحریک انصاف کی حکومت کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی کہ وہ اس کے ساتھ معاہدہ کرکے چھپائی گئی رقم بازیاب کرالے۔ نیز ماضی میں نیب معاہدے کی یک طرفہ منسوخی کی وجہ سے ہونے والے اس کے نقصان کی تلافی بھی کی جائے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے لیے صورت حال پرکشش ضرور تھی لیکن وہ جال میں پھنسنے سے بچ گئی۔ 2020 ء کے وسط میں ثالث نے نیب کو تحلیل ہونے والی براڈ شیٹ کو 28  ملین ڈالر اداکرنے کا حکم دیا۔ ستمبر میں نیب نے 27  ملین ڈالر لندن میں پاکستانی سفارت خانے کے یونائیٹڈ نیشنل بنک ایل ایل سی اکاؤنٹ میں منتقل کردیے۔ ماسوی کو اس کی خبر ہوگئی۔ اس نے ایک عدالتی حکم نامے کے ذریعے یوبی ایل کو واجبات ادا کرنے کے لیے کہا۔ اس کے بعد ماسوی نے ان واقعات سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے عمران خان پر بدعنوانی کے خلاف مہم سے پیچھے ہٹنے کا الزام لگایا۔ الزام یہ تھا کہ عمران خان نے نواز شریف کے مبینہ طور پر غیر ملکی اکاؤنٹس میں پڑے ایک بلین ڈالرکا کھوج لگانے کے لیے اس کی خدمات حاصل کرنے سے انکار کردیا ہے۔


اب حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر فنڈز جاری کرنے پر یوبی ایل کے خلاف کارروائی کرے گی۔تاہم حکومت کے پاس ایسا کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں کیوں کہ یوبی ایل کسی عدالت کے حکم نامے کو مسترد نہیں کرسکتا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت کہانی کو اپنی مرضی کا موڑ دے رہی ہے۔ اس کے لیے لند ن کی عدالت کانواز شریف کی آٹھ سو ملین ڈالر رقم کا حوالہ دینا نوا زشریف کی بدعنوانی کا ثبوت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے نواز شریف کی دولت کے ایک سو ملین ڈالر کو بھی چیلنج کیا ہے جس کا بیس فیصد براڈ شیٹ کو واجب الادا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ 800  ملین ڈالر لندن عدالت کے اپنے ذہن کی پیداوار نہیں بلکہ یہ اعدادوشمار پاکستان میں 2017 ء میں قائم ہونے والی جے آئی ٹی اور نیب کے بیان کردہ ہیں اور نیب عدالت کی کارروائی کی سپریم کورٹ نے نگرانی کی تھی۔ تاہم نیب اس رقم کی ایک پائی تک نواز شریف سے برآمد نہیں کراسکا۔


اس سے کچھ واضح نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔ پہلا، 2000-2008  ء تک نیب میں کام کرنے والے جنرل نااہل اور سیاسی طورر پر بدعنوان تھے لیکن اُن کا احتساب نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کا براڈ شیٹ کے ساتھ کیا گیا معاہدہ خامیوں سے لبریز تھا، اُن کے وکلا عقل سے پیدل تھے،اُن کے درمیان معاملات طے کرانے والے افراد مشکوک تھے۔ طارق فواد، جیری جیمز اور کیوے ماسوی تیزطرار ایجنٹ تھے جنہوں نے اپنا بھرپور حصہ وصول کرلیا۔ حتمی ایوارڈ بھی براڈ شیٹ کی تحقیقات کا نہیں بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی حکم سے بننے والی جے آئی ٹی کے مبہم اعدادوشمار کی بنیاد پر ہے۔


اب پاکستان تحریک انصاف نے تحقیقات کے لیے ایک جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا ہے تاکہ براڈ شیٹ معاملے کے پیچھے چھپی سچائی کو سامنے لایا جاسکے۔ اس واقعے کی تمام دستاویزات سامنے آنے سے حقائق پہلے ہی بے نقاب ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ معاملات طے کرانے والوں اور ماسوی کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ناقابل ِ تردید کہانیاں بھی منظر عام پرہیں۔ ہم نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس تمام کاوش کا مقصد صرف تحریک ِانصاف کے مخالفین کو مورد ِالزام ٹھہرانا ہے۔ عمران خان پہلے ہی نواز شریف اور دیگر کو این آر او دینے پر جنرل پرویز مشرف کو مورد الزام ٹھہرا چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد براڈ شیٹ کی دوسو بدعنوان سیاست دانوں کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ اندازہ ہے کہ ماسوی یا کسی اور کو نواز شریف کی بیرونی ممالک میں چھائی گئی دولت کا کھوج لگانے کی مہم سونپی جائے گی۔ا س کے لیے زمین تیارکی جارہی ہے۔ یقینا کئی ایک عالمی ساکھ رکھنے والی کمپنیاں بخوشی اس منصوبے پرکام کرنے کے لیے تیار ہوں گی۔


اگر براڈ شیٹ کیس میں سول ملٹری افسران سے لے کر وکلا کی نااہلی پرپاکستانیوں کو تشویش ہے تو ابھی مزید صدمات کے لیے تیار ہوجائیں جب ریکوڈک معاہدہ منسوخی کیس میں ٹیتھران کاپر کمپنی کو سات ارب ڈالر ادائیگی کے فیصلے کے تحت پاکستان کے بیرونی ممالک میں اثاثے ضبط کیے جائیں گے،جن میں پی آئی اے کا روزویلٹ ہوٹل بھی شامل ہے۔