عمران خان کی چال

عمران خان کی چال

اسلام آباد میں پالیسی کا ابہام خطرنا ک گھاٹی اتر چکا۔ پہلے ابہام تھاکہ کیا پاکستان کوآئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے یا نہیں۔ اسدعمر ’ناں‘ کررہے تھے کہ حفیظ شیخ نے ’ہاں‘ کردی۔ پھر یہ الجھن آن کھڑی ہوئی کہ کیا ہمیں اداروں کو نجی تحویل میں دینا چاہیے یا نہیں۔ اسد عمر ’ہاں، ناں، یا شاید‘ کی الجھن میں تھے، جبکہ حفیظ شیخ بہت سے یونٹس کو نیلام کرنا چاہتے تھے، لیکن عملی طور پر اُنھوں نے کچھ نہ کیا۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان نے یوٹرن کو اپنی عظیم قیادت کا اہم ترین وصف بنا لیا۔یہ سب کچھ اپنی جگہ پر؛ آج کوویڈ 19 کے دور میں لاک ڈاؤن کی مبہم پالیسی نے ژولیدہ فکری کے سب ریکارڈ توڑ دیے ہیں:  اب ہم سب لاک ڈاؤن میں ہیں؛ نہیں لاک ڈاؤن نہیں ہے؛ اس وقت اسلام آباد اور صوبے متفق پالیسی رکھتے ہیں؛  ہر صوبہ اپنی پالیسیوں میں آزاد ہے؛ علما قانون کی پاسداری کرنے کے لیے راضی ہیں؛ علما اپنی مرضی کررہے ہیں۔۔ علیٰ ھذالقیاس۔


عالمی سطح پر نافذ بہترین پالیسیوں کی مثال سامنے ہونے کے باوجود عمران خان روزاوّل سے کئی وجوہ کی بنا پر لاک ڈاؤن پالیسی کے خلاف تھے: حکومت کے پاس اتنا پیسہ یا وسائل نہیں ہیں کہ وہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والے اُن لاکھوں خاندانوں کی کفالت کرسکے۔ اُن کے روزی کمانے والے لاک ڈاؤن کے دوران بے روزگار ہوجائیں گے تو وہ کیا کھائیں گے۔ دوسری یہ کہ وہ معیشت کو مفلوج نہیں کرسکتے کیونکہ یہ پہلے ہی قرضوں کے سمندر میں ڈوب رہی ہے۔


وزیراعظم نے اپنے ابہام کی پٹاری سے ”سرکاری“ ڈیٹانکال کر بتایا کہ پاکستان میں کوویڈ 19 کا پھیلاؤ دیگر ممالک کی طرح خطرناک نہیں؛ اس سے ہونے والی اموات کی ایک یا دو فیصد شرح ظاہر کرتی ہے کہ متاثرہ فراد، خاص طور پر نوجوان، وائرس کا آسانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں؛گرم موسم وائرس کا ”ڈنگ“ نکال دے گا؛ قوی امکان ہے کہ بہت جلدکوئی ویکسین دستیاب ہوگی۔ دوماہ میں وائرس آبادیوں میں پھیل گیا، لیکن ٹیسٹنگ کٹس کی ناکافی تعداد ہونے کی وجہ سے اس کا پھیلاؤ نامعلوم رہا۔ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لیے حفاظتی سازوسامان بھی دستیاب نہ تھا۔اس دوران عمران خان انگلیاں مروڑتے، پہلو بدلتے، فکری الجھاؤ کی عملی تصویر بنے کوشش کرتے رہے کہ میڈیا میں لاک ڈاؤن کے حق میں اٹھنے والی آوازوں اور اپوزیشن کی تنقید کو ٹال دیں۔


گزشتہ ہفتے عمران خان اپنے مبہم موقف سے پیچھے ہٹتے دکھائی دیے۔ اُنھوں نے نیم دلی سے کیے گئے غیر موثر اور ”امتیازی“ لاک ڈاؤن کے دوران بے روزگار ہونے والوں کی داد رسی کے لیے چند سو بلین روپے کا ”ریلیف پیکج“ اچھالا۔ سچ پوچھیں تو یہ سب کارروائی لاک ڈاؤن اور معاشی بحالی کے نام پر ایک مذاق ہے۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک سفری پابندی؛ لیکن ایک شہر سے دوسرے شہر تک جانے کی اجازت ہے۔ کوئی بھی کاروبار جس میں ”مزدور“ استعمال ہوتے ہیں، کھلا رہ سکتا ہے، چاہے وہ صنعتی یونٹ ہو یا پرچون کی دکان؛ لیکن کوئی شخص اپنی دکان(جسے کھلا رکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی) نہیں کھول سکتا؛تعمیرات کا شعبہ، پراپرٹی بزنس، کو خصوصی مراعات ملیں گی اور اُنہیں اپنے سرمائے کا ذریعہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں (گویا کالے دھن کی اجازت)، لیکن مکان خریدنے والے کے لیے کوئی سہولت نہیں؛ درزی اور کتب فروش دکانیں کھول سکتے ہیں لیکن سکول، ناشر اور پبلشر نہیں (کتاب کی دکان کھلی ہے، لیکن کتابیں پڑھنے اور شائع کرنے والے بند ہیں)؛ گویا زیادہ تر معمولات زندگی جاری ہیں، اور لاک ڈاؤن بھی چل رہا ہے۔ اس فیصلے کے اخلاقی پہلو پر کچھ نہ کہا جائے تو بہتر ہے۔ اگر ہزاروں لاکھوں پاکستان کی جانیں گنوا کر معیشت چلتی رہے تو اُن کے نزدیک یہ خسارے کا سودا نہیں۔


افسوس، جس مشکل کے وقت ملک کو ایسے رہنما کی ضرورت تھی جو قوم کا حوصلہ بڑھا تا اور ٹھوس فیصلے کرتے ہوئے عوام کو متحد رکھتا، اُس وقت ہم اسلام آباداور سندھ کے درمیان محاذآرائی، اور حکمران جماعت پی ٹی آئی اور متحد اپوزیشن کے درمیان تلخی دیکھ رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کا گرم تعاقب جاری ہے۔ سندھ کے وزیرِاعلیٰ، مراد علی شاہ، جنہوں نے اس بحران کے دوران صوبے میں بہت اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے عوام سے داد پائی، پرپی ٹی آئی کے ”اگلے دستوں“ کے حملے جاری ہیں۔ درحقیقت اب وزیر ِاعظم خود بھی اکھاڑے میں کود چکے ہیں۔ وہ بیان بازی کے ذریعے خود کو سندھ کے عوام کے حقیقی محسن کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ قوم کی صحت کو لاحق سنگین خطرات بھی سیاسی محاذ آرائی ختم نہیں کراسکے ہیں۔


ماہرین کی کثیر تعداد اس کے برعکس موقف رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوویڈ 19 کے حقیقی پھیلاؤ کو رپورٹ نہیں کیا جارہا: ممکن ہے کہ لوگ سماجی وجوہات کی بنا پر علامات کی رپورٹ نہ کررہے ہوں؛ علامات خطرناک اور جان لیو ا نہ ہوں؛یا وہ ٹیسٹنگ کٹس اور تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے طبی سہولت سے محروم ہوں۔ جو لوگ وائرس انفیکشن کی وجہ سے گھروں پر دم توڑ رہے ہیں، کو خاموشی سے دفن کیا جارہا ہے۔ اُنہیں کورونا وبا کا شکار ظاہر نہیں کیا جارہا۔ اس غفلت شعاری کے باوجود متاثرہ افرا د کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، یہ اضافہ دھماکہ خیز ہوسکتا ہے۔


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے عمران خان جیسی پالیسی اپنائی تھی۔ مسٹر ٹرمپ کو خوش فہمی تھی کہ بین الاقومی سفری پابندیاں اورکسی نئی ویکسین کی آمدوائرس کو روک لے گی، لیکن وہ غلط ثابت ہوئے۔ اس وقت امریکا دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ مسٹر جانسن کی اپنی زندگی خطرے میں پڑ گئی،اور وہ آئی سی یو میں بال بال بچے تو کہیں جا کر اُنھوں نے لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی۔


پاکستان کی خاطر، ہمیں امید ہے عمران خان کی چال کامیاب ہوگی۔ اگر خدا نخواستہ ایسا نہ ہوا تو پاکستانیوں کو اس ابہام کی قیمت اپنی جانوں سے چکانی پڑے گی۔

Najam Aziz Sethi is a Pakistani journalist, businessman who is also the founder of The Friday Times and Vanguard Books. Previously, as an administrator, he served as Chairman of Pakistan Cricket Board, caretaker Federal Minister of Pakistan and Chief Minister of Punjab, Pakistan.