پاکستان ایک اور دوراہے پر

پاکستان ایک اور دوراہے پر

کیا پاکستان پر درحقیقت حکومت کرنے والی اسٹبلشمنٹ کو ملک کی صورت حال، اپنے مسلط کردہ ہائبرڈ سیاسی نظام کی مایوس کن کارکردگی، اس کے اداروں، اس کی معیشت اور اس کے خطے کے ممالک اور عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات پرفکر مند ہونا چاہیے؟ ملک کو جن مختلف بحرانوں کا سامنا ہے، ا ن کی نوعیت اور سنگینی یقینابہت تشویش ناک ہے۔


ہائبرڈ نظام کا بحران:   اسٹبلشمنٹ کی سلیکٹڈ پارٹنر، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں، اسے لانے، مسلط کرنے اور سہارا دے کر قائم رکھنے پر اسٹبلشمنٹ کی ساکھ کو بھی زک پہنچی ہے۔ دوجماعتی نظام کی جگہ ایک جماعت کے ہاتھ ملک کی باگ ڈور تھمانے کی کوشش کا صرف ایک نتیجہ برآمد ہوا۔ مسلم لیگ نواز کو نئی زندگی مل گئی۔ اگلے انتخابات میں ممکنہ شکست، جو سول ملٹری عدم توازن کو چیلنج کرسکتی ہے، سے بچنے کے لیے تحریک انصاف نت نئے قوانین لارہی ہے۔ ان کے ذریعے نہ صرف حزب اختلاف میں شامل جماعتوں،بلکہ کچھ ریاستی اداروں کو بھی دباؤ میں لانا مقصود ہے۔ نیب اور ایف آئی اے اس دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں، اعلیٰ عدلیہ سخت آزمائش میں ہے، الیکشن کمیشن اور میڈیا حملوں کی زد میں ہیں۔ پارلیمنٹ جس کا اکثر کورم پورا نہیں ہوتا، کی غیر فعالیت کی پردہ پوشی کے لیے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کی دھمکی دی جارہی ہے۔ اس کا مقصد نئے جابرانہ قوانین کو زبردستی مسلط کرنا ہے۔


معاشی بحران:  تذبذب، جزو قتی اقدامات، ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے اور ابہام زدہ پالیسیوں کے نتیجے میں غیر یقینی پن کی فضا گہری ہوچکی ہے۔ صرف تین برسوں کے اندر تین وزرائے خزانہ،تیرہ معاونین خصوصی برائے وزیر اعظم، چھے چیئرمین ایف بی آر،پانچ فنانس سیکرٹری، دو گورنر اسٹیٹ بنک وغیرہ نے مختلف، بلکہ متضاد پالیسوں پر کام کیا ہے۔ اس دوران اسٹاک مارکیٹ کریش ہوچکی ہے، ہماری کریڈٹ ریٹنگ ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے سٹیٹس سے گر کر فرنٹیر مارکیٹ تک آچکی ہے جب کہ مہنگائی دہرے ہندسہ میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ تین سالوں میں اپنی نصف قدر کھودینے والا روپیہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے ایشیا کی بدترین کرنسی ہے۔ چوبیس فیصد تعلیم یافتہ افراد بے روزگار ہیں۔ حال ہی میں 1.5  ملین افراد نے چپڑاسی کی ملازمت کے لیے درخواستیں دی ہیں۔مالیاتی خسارہ 9.3 فیصد تک جاپہنچا ہے۔ جی ڈی پی کے 90   فیصد سے تجاوز کر جانے والے قرضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ معاشی بربادی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ غریب مسلسل غریب ہوتے جارہے ہیں۔ درمیانی طبقے کی معاشی حالت بدستور نیچے جارہی ہے جب کہ دولت مند افراد کی پریشانیاں بھی کم نہیں۔


خارجہ پالیسی کا بحران:  عالمی برداری، جس کی قیادت امریکا اور یورپی یونین کے پاس ہے اور جس کے ساتھ پاکستان کے زیادہ تر تجارتی روابط رہے ہیں، کے ساتھ ہمارے کے تعلقات اس وقت انتہائی خراب ہیں۔یورپی یونین کے دیے گئے جی ایس پی پلس سٹیٹس کی بدولت ہماری زیادہ تر برآمدات کو سہارا مل جاتا تھا لیکن اب یورپی یونین اسے واپس لینے کی دھمکی دے رہی ہے۔ دوسری طرف امریکا امداد فراہم کرنے والے اداروں، جیسا کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک وغیرہ کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہم قرضے اور مالی امداد کے لیے ان اداروں پر انحصار کرتے ہیں۔اب صورت حال اس نہج تک پہنچ چکی کہ وہاں پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ پاکستان کی وہ دہری پالیسیاں بتائی جاتی ہیں جو امریکا کی افغانستان میں شکست کا باعث بنیں۔


ہمارے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے تعلقات میں ابھی بہتری نہیں آئی۔ ان تعلقات کو عمران خان کی سرد مہری نے شدید زک پہنچائی تھی۔ انڈیا کے ساتھ تعلقات کبھی اتنے خراب نہیں رہے تھے جتنے اب ہیں، حالاں کہ ہمارا مفاد اس میں تھا کہ یہ تعلقات معمول پرہوتے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ افغانستان میں حالیہ دنوں طالبان کا اقتدار پر قابض ہونا ہمارے لیے طمانیت بخش ہونا چاہیے تھا۔لیکن اس کی وجہ سے ہماری تشویش میں کئی گنا اضافہ ہواہے۔ ہماری مغربی سرحدوں پر دوست حکومت، وسطی ایشیا ئی ریاستوں کی طرف کھلنے والی اقتصادی راہ داری، معدنیات اور توانائی کے لیے پائپ لائن کی تعمیر جیسے امکانات تیزی سے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔  افغانستان میں داخلی طور پر دھشت گردی کے پروان چڑھنے سے ایک اور غیر ملکی مداخلت کے خدشات بڑھ ہیں۔


بڑھتے ہوئے ان بحرانوں کی سنگینی اُس وقت دوچند ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کے پالیسی سازوں اور حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔ اوّل الذکر کی توجہ مدت ملازمت، ترقی، تقرری اور تبادلوں پر مرکوز ہے تو ثانی الذکر حزب اختلاف کو تباہ کرنے، میڈیا کو کنٹرول کرنے، عدلیہ کا بندوبست کرنے اور اگلے عام انتخابات میں دھاندلی پر تلی ہوئی ہے۔


آزادی کے بعد ستر برسوں کے دوران پاکستان بار ہا کسی نہ کسی دوراہے پر پہنچا، لیکن وہ راستہ اختیار کرنے میں ناکام رہا جس پر چل کر قومی تعمیر اور معاشی استحکام کی منزل آسکتی تھی۔ 1958  ء میں اسٹبلشمنٹ نے آئینی جمہوریت کی بجائے مارشل لالگادیا جس کی ہمیں بھیانک قیمت چکانا پڑی۔ اس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔ 1977  ء میں اسٹبلشمنٹ نے ایک بار پھر مارشل لالگا دیا۔ اس دوران سوویت یونین کے خلاف نام نہاد جہاد کیا گیا۔اس کے نتیجے میں جنگجو فرقہ واریت نے ملک کو لہولہان کردیا۔ 1999 ء میں اسٹبلشمنٹ نے ملک پر قبضہ کرکے طالبان کو اپنے طویل المدت اتحادی کے طور پر پناہ دی۔اس کا صلہ کچھ یوں ملا کہ تحریک طالبان پاکستان نے پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان لے لی۔ یہ القاعدہ اور داعش خراسان کے ساتھ مل کر پاکستان کو آج کہیں بڑے نقصان سے دوچار کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ ان تینوں مواقع پر ہم امریکا کے اتحادی تھے جس نے ہماری معیشت میں پیسہ ڈال کر سول ملٹری اشرافیہ کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ اُنہیں اپنا ضرورت مند بھی بنا لیا۔


آج ایک مرتبہ پھر ہم دوراہے پر کھڑے ہیں،لیکن اس مرتبہ ہمارے سامنے ماضی کی طرح امریکی امداد کا راتب نہیں بلکہ معاشی پابندیوں اور عالمی تنہائی کی دھمکیاں ہیں جب کہ ملک سنگین معاشی، سیاسی، آئینی اور ادارہ جاتی بحرانوں کی زد میں ہے۔ دوسری طرف افغانستان سے ہم پر نازل ہونے والی دھشت گردی میں بھی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔


ان وجوہ کی بنا پر پاکستان کی حکمران سول ملٹری اشرافیہ کو قومی طاقت۔۔۔ متحرک سکیورٹی،پائیدار اور آزاد معاشی نمو، ترقی کے ثمرات کی منصفایہ تقسیم، اتفاق رائے سے ہونے والی قانون سازی، سیاسی شراکت داری اور آئینی جمہوریت اور گورننس کی ضرورت ہے۔ معاشی طور پر کمزور، سیاسی طور پر منقسم اور آئینی طور پر نحیف و ناتواں قوم ناکام ریاست، اور عالمی شکاریوں کا لقمہ بننے کے خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔