اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تاریخ رقم کردی ہے ۔ اُنھوں نے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پاک بحریہ کا راول ڈیم کے کنارے بنا ہوا کشتی رانی کا کلب گرانے کاحکم دیا ۔ نیزاسلام آباد کا منال ریستوران اورمارگلہ گرینز گالف کلب کو ضبط کرنے کی ہدایت کی کیوں کہ یہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس طرح جج صاحب نے فوج کے آٹھ ہزار ایکڑ ایسی زمین پر دعوے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ فاضل جج صاحب کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ کے پاس ایسے تعمیراتی منصوبے سرانجام دینے کا اختیار نہیں، اور نہ ہی وہ اپنا نام ان کے لیے مستعار کرسکتی ہے۔
فطری طور پر اس فیصلے پر لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں میں طمانیت کی لہر دوڑ گئی، گرچہ اس نے ایسے طاقت ور افراد کو برہم کردیا جو ریاسی اداروں پر کنٹرول جمائے ہوئے ہیں۔ ان کے بھی ملک بھر میں غیر قانونی جائیداد کے ساتھ مفاد ات وابستہ ہیں ۔ شروعات کے طور پر، آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی زمین پر 79 ''تجاوزات'' کی ایک فہرست ظاہر کی جس میں نوٹ کیا گیا ہے کہ کئی سرکاری ادارے، سی ڈی اے، میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد، اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ وغیرہ علاقے کو کنٹرول کرنے اور اس کا انتظام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اس نے فیصلے کرنے اور اجازت دینے کے حق کو مشکل بنا رکھا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے نے ان سوالات کو بھی جنم دیا ہے کہ اس سے پہلے عدالتیں امیر اور طاقتوردھڑوں سے متعلق ایسے معاملات کو کیسے نمٹاتی رہی ہیں، جب کہ غریب اور کم زور افراد کا عدالت میں حشر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ حال ہی میں دو مقدمات نے عوامی غم و غصہ کو ہوا دی۔ ان میں عدالتیں طاقتور اسٹیک ہولڈرز کو خوش کرنے کے لیے پیچھے ہٹ گئیں ۔ پہلا بنی گالہ میں عمران خان کی اربوں روپے کی وسیع و عریض جائیداد کا ہے جو کئی سال قبل غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی ۔ جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر سی ڈی اے نے اسے ڈھٹائی سے ”ریگولرائز“ کیا تھا۔ اس عدالتی حکم کی تعمیل میں سی ڈی اے کے بدقسمت چیئرمین جس نے جائیداد کے حوالے سے عمران خان کو سوالنامہ بھیجا تھا، کی فوری طور پر تنزلی کردی گئی اور جس صحافی نے وزیر اعظم کی بددیانتی کو بے نقاب کرنے والی ایک خبر کا حوالہ دیا، اسے پیمرا نے شوکاز نوٹس جاری کر دیا ۔ دوسرا کانسٹی ٹیوشن ایونیو اسلام آباد میں ایک بلند و بالا لگژری اپارٹمنٹ کی تعمیر ہے، جس کے مالکان کا شمار اہم اور طاقت ور افراد میں ہوتا ہے(جیسا کہ عمران خان تھے)۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی جانب سے حال ہی میں کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کی مسماری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس ثاقب نثار کی عدالت نے اس عمارت کو دوبارہ ریگولرائز کردیاتھا۔
یہ مہان خرابی کی ایک سرسری سی جھلک ہے، جیسے برفانی تودے کا باہری کنارہ۔ سرکاری وسائل کی لوٹ مار آغاز 1947 میں تقسیم کے وقت ہی ہوگیا تھا جب ہندوؤں اور سکھوں کی دسیوں اربوں مالیت کی شہری اور دیہی جائیدادوں پر ریاست کے نئے آقاوں نے قبضہ کر لیا ۔ میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنے اتحادیوں اور اثاثوں کو نوازا گیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاست کی پارلیمان نے پاکستانیوں کی زمینوں اور جائیدادوں کے آسان اور سستے حصول کے لیے قوانین بنانا شروع کردیے۔ اس کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ ان زمینوں پر عوامی پارک، تعلیمی ادارے یاسکیورٹی اور دفاعی تنصیبات قائم کی جائیں گی ۔ اس کے بعد یہ اراضی من پسند اداروں اور افراد کو کوڑیوں کے بھاؤ لیز پر دی گئی۔ ان افراد نے خاموشی سے ان کو نجی شعبے (ہاؤسنگ سوسائٹیوں، کلبوں، شادی ہالوں، گولف کورسز وغیرہ) کے انتہائی نفع بخش تجارتی منصوبوں میں تبدیل کرلیا ۔ اور اسی طرح پاکستان میں فوجی معیشت انتہائی معروف کاروباری ادارہ بن کر سامنے آئی۔ اس کے پاس ایئر لائنز، شپنگ، ہوٹل، بینک، انشورنس، خوراک، کھاد، سیمنٹ، ہاؤسنگ وغیرہ کا کاروبار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس من اللہ کا حالیہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے قبل انہوں نے سول بیوروکریسی کو خود کو اور ججوں کو قیمتی رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کو معمولی قیمتوں پر الاٹ کرنے کے عمل کو روک دیا تھا تاکہ زمینوں پر قبضے کے دعووں اور قانون کو من مرضی سے موڑنے کے عمل کو روکا جاسکے ۔ کون سی دوسری عدالت یا جج ان کی قابلِ تعریف مثال کی تقلید کرتے ہوئے پاکستانی تاریخ کے اس سنگ میل کوعبور کرے گا؟
سپریم کورٹ کو اب مفاد عامہ کے ایک اور چیلنج کا سامنا ہے۔ وکیل احسن بھون کی سربراہی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پاکستان مسلم لیگ ن کے نواز شریف اور تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کے صادق اور امین نہ ہونے پر عوامی عہدہ رکھنے سے تاحیات نااہلی کو چیلنج کیا ہے۔ یہ درخواست سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کی جانب سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے اعلیٰ سطح کی عدالتی ناانصافی، بدانتظامی اور سیاسی تعصب کے انکشافات کے بعد دی گئی ہے ۔ ان ناروا سرگرمیوں کا مقصد نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنا تھا۔ عدالتی نظرثانی کے لیے زمین کو مزید ہموار اس وقت ہوگئی جب تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری احمد جواد نواز شریف کو عہدے سے ہٹانے اور عمران کو اس پر فائز کرنے کے لیے عدالتی اور فوجی جوڑ توڑ کے الزامات کو منظر عام پر لے آئے۔ ان کا یہ الزام کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے نواز شریف کی غیر منصفانہ برطرفی کو ''توازن'' دینے کے لیے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا۔ یہ بیان متعدد مقدمات میں مسٹر شریف کے ٹرائل اور اپیلوں پر اثرانداز ہوگا اور عدلیہ کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بحال کرسکے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کو جب سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کے الزامات کا فیصلہ کرنا ہوگاتو ان پر یہ بھی دباؤ ہو گا کہ وہ احمد جواد کی گواہی کو بھی اپنی بحث میں شامل کریں۔
کیا جسٹس اطہر من اللہ اس وقت مرد میدان ہیں؟ کیا وہ تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں؟